لکھ یار

ابدال بیلا کے ناول تم پر مقالہ

حنین سلیم عرف نینو مغل

ابدال بیلا کا ناؤل تم

 ابدال بیلا کی کتاب کس صنف سے تعلق رکھتی ہے یہ کہنا مشکل ہے۔ افسانہ یہ ہے نہیں۔۔۔ کہ اس کے کردار حقیقی ہیں اور ناول یہ ہو نہیں سکتا کہ یہ رواں تبصرہ ہے ایک تعلق کا جس کے اختتام اور کردار “تم” سے قاری ناآشنا رہے۔

 ہاں اسے ایک آپ بیتی کہہ سکتے ہیں ۔۔۔ یہ کہانی ، ابدال بیلا کے ایک تعلق کی ہے ۔۔۔ جسے محبت سے زیادہ کرش کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ سنا ہے  انشاء جی ایسا عشق لگاتے تھے جس کی تکمیل کی کوئی صورت نہ ہو۔ اس عشق کو روگ بنا کر وہ ذوق کو پالتے تھے مگر کہانی تم نے ذوق کے بجائے ابدال بیلا کی کیفیات کو بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر ان کی محبوبہ نے کب کون سے رنگ کے کپڑے پہنے اور اسے مصنف نے کیسے قبول کیا شلوار کے پائنچے کیسے کب کہاں الجھے۔

 کندھوں پر ہاتھ رکھنے کی چند ایک کامیاب اور ناکام کوششیں کی بیان کی گئیں۔

 میں یہ نہ سمجھ سکا کہ ان تجربات کو عوامی تحریر بنانا کیونکر ضروری تھا ؟ کہ ایسے جذبات سے تمام ٹین اجیرز گزرتے ہیں۔ کتاب کا آغاز نہایت عمدہ ہے اور اے کاش کہ اس تسلسل قائم رہ پاتا۔ کتاب کا سرورق ملاحظہ ہو۔

 تم کون ہو؟ کیوں پیاسا رکھتی ہو۔ جانتی ہو پیاس صرف پیاسے کی نہیں ہوتی۔ پانی کی بھی ہوتی ہے۔ پانی کی پیاس اس کا پیا جانا ہے۔ وہ پیا نہ جائے تو گدلا ہو جاتا ہے۔ تم کبھی ریگزاروں کی راہ میں ہزارہا قدم دھوپ کے سفر کے بعد آئے مسافر سے۔ جتنا انتظار مسافر کو اس کنوئیں سے پیاس بھجانے کا ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ کنواں پیاسے کی راہ دیکھتا ہے۔ میری پیاری۔ کنویں کو پانی پلانے کا انتظار پیاسے کے پینے کی طلب سے کم نہیں۔۔۔۔۔

سوال یہ ہے کہ آپ کی پیاری کسی اور کی دلاری کنواں ہی کیوں بنے ۔۔۔ ندی یا جھیل کیوں نہ بنے۔۔۔ اپنے لیے روانی اور فراوانی کا سفر کیوں منتخب نہ کرے؟ پھر ایک جگہ لکھا کہ دروازے کا کام ہے کھلنا اور راستہ دینا۔۔۔۔۔ دستک دینے والے کو کوشش جاری رکھنی چاہیے میرا خیال ہے تین بار کی دستک کے بعد لوٹ جانا بہتر ہوتا ہے۔ آپ کے گُرو نے ممتاز مفتی نے بھی اعتراف کیا کہ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ ہاں کا مطلب ہاں اور نہ کا مطلب بالکل نہ ہے۔

میں سوچتا ہوں ایک شادی شدہ عورت سے محبت کی کہانی لکھنے والے نے سیرت النبی بھی رقم کی۔ ایک يا دو دہائی بعد جب تحقیق ہو گی جس کا معیار بلند ہو گا تو آپ کو کیسے دیکھا جائے گا؟ میں میٹھی باتیں کر سکتا تھا مگر کسی کو سچ بولنا تھا اُمید ہے آپ کی ہمیشہ کی طرح خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ اپنے چاہنے والوں کی تنقید قبول کریں گے اور گرو کا شکریہ بھی ادا کریں گے جنہوں نے آپ کو تقریب رونمائی سے منع فرمایا اور ایسے فضول ناقدوں سے جاں بخشی کروائی۔

 نادان سمجھ کر معاف فرمائیں اور قاری سمجھ کر برادشت کریں کہ یہ قاری کا حق تھا۔

 شکریہ۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button