Payaz k Chilkay

بانو قدسیہ اور شہر بے مثال

شہر بے مثال بانو قدسیہ کئ تازہ ترین تصنیف ہے اس ناول میں  کہی ان کہی کئ ایک کہانیوں کئ رنگین لڑیاں ہیں جو مرکزی کہانی کے تنے سے پھولدار شاخوں کی طرح پھوٹ لر آدھر  ادھر نکل گیی ہیں

ان کہانیو ں میں چند ایک رنگ برنگ کے جیتے جاگتے رستے بستے ماحول ہیں.  اور کیی ایک چلتے پھرتے ,ہنستے  شوخ اور جازب کردار.

ان کردارو ں کے جھرمٹ میں ایک سہما سمٹا ہوا شہر ہے  . جیسے اپنی ہی تخلیق کردہ مخلوق پر حیران ہو اور ان سب کے اوپر چھائی ہوئی فضا میں مصنفہ کا آڑتا ہوا دھاری دار آنچل, پرکار ہاتھ اور شوخ  اشارات کی سینکڑوں ہزاروں  پھلجھڑیاں جن کی کرنوں میں شہر کی پھلکاری کےگونا گو ں پھولوں کی پنکھڑیاں  ابھرتی ہیں

رنگ اور نقش کی ایک بھیڑ  لگ جاتی ہے, اور قاری کے دل میں  پھر سے جینے کی آرزو  انگڑاییاں  لینے لگتی ہے

لسٹر کی چادر میں ملبوس نووارد سہمی ہوئی معصوم پاکیزہ کبوتری….. رشو شہر کی فضا میں رچی بسی امریکی اشتہار کی طرح محلے سومبر  رچانے کی دلدادہ لیکن دکھلاوے اور مصلحت کی پرستار…..  ڈمپل

چھیڑ چھاڑ کی رنگ پچکاری اٹھائے قلقل قہقہے مارتی،  زقند بھرتی چوٹی کا سپنولیہ لہراتی،  کچی عمر کا پٹاخہ انوری.

اللہ میاں کی گائیں اور جہاں دیدہ  طوائف کا پر اسرار امتزاج….  گلنار

بٹیل کے روپ میں شدت پسند, کان چروا کر مندرے ڈلوانے کا شوقین. دھیدو ظفر  . آر ایچ فیکٹر بگڑے ہوئے گھر  میں بیگم کے ساتھ تخلیہ میں ٹامک ٹوییاں مارنے والا  غازی… افسر کلرک ..خانو جمال..  جسم اور خیالی نقطے کی بنیاد پر قائم ہونے والا غیر فطری جوڑا…. ط  ظ

طوائفه سے خالی سر پر تیل لگوا کر سرمہ ڈلؤا  کر  خوشی  خوشی  گھر لوٹنے والا بدھو غازی

نوجوان جوڑوں کا ملاپ کرا کر ان کی توجہ کا مرکز بننے کی شوقین ملایم بڈھی…. خالہ فیروزہ

کپڑے  میک اپ اور ہیروینوں  سے وضع کی ہویی ماڈرن لڑکیا ں.. جن کے وجود سے کپڑے  اور پنے نکال دو تو باقی فالودہ رہ جاتا ہے.  . تین دن کا باسی فالودہ…..

اپنی زندگی کے سٹوپا  سے باہر نکلنے کے شوقین اور چیک بک کی مدد سے شنکر چور ناگ  کورام کر کے خواب  دیکھنے والا…. ملک….. اور سرین کے بل بوتے پر توجہ  جذب  کرنے کا خواہاں…… شہر بے مثال……..

بے شک شہر بے مثال  میں  بڑی گہما گہمی ہے لیکن جب مصنفہ خود  پچکاری اٹھائے داخل ہوتی ہے تو کردار, ماحول  اور شہر سب معدوم ہو جاتے ہیں

وہ چپ  چاپ آ نکلتی ہے انگلی پکڑ  کر  آ پ کو لے چلتی ہے ایک ایک کردار سے تعارف کراتی ہے ماحول کی جزیات میں رنگ بھرتی ہے… سادہ سپاٹ روزمرہ کی تفصیلات میں کلیاں  ٹانکتی ہے…. رنگ پچکاریاں چلاتی ہے آپ انبساط بھری حیرت  سے چونکتے ہیں… کیا دیکھتے ہیں .اپ..  کردار, ماحول اور شہر سب دھندلا چکے ہیں.. صرف مصنفہ اور اس کی رنگ پچکاری

ہاں اس ناول کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ جوں جوں آ پ اسے پڑھتے جاتے ہیں  توں توں الفاظ میں سے تراکیب میں سے اشارات میں سے, استعاروں سے انداز بیان سے تشبیہات سے insertions سے, نہ جانے کہاں کہاں سے مصنفہ ابھرتی ہے ابھرے چلی آ تی ہے حتی کہ وہ شہر بے مثال  کے سارے ماحول پر چھا جاتی ہے اور أپ  محسوس کرنے لگتے ہیں کہ وہ جملہ ماحول سے رنگین تر ہے.  . جملہ کرداروں سے جازب تر…. یہ خصوصیت صرف مصنفہ سے ہی منسوب نہیں بلکہ خود  بانو قدسیہ کی شخصیت کا بنیادی اور مرکزی  پہلو ہے

شاید آپ کو کبھی اشفاق احمد کے گھر جانے کا اتفاق ہوا ہو  نہیں ہوا  تو کبھی فرصت کے وقت ان کے ہاں جایئے.  . .اشفاق آپ کو تپاک سے ملے گا  . جلد ہی اس کی باتوں کی بے تکلفی, سادگی اور دلچسپی آپ کو جزب کر لے گی

اشفاق باتوں کا رسیا ہے.  عین ممکن ہے کہ اس کی باتوں کے جال میں  پھنس کر أپ کو یہ پتہ بھی نہ چلے کہ کمرے میں  ایک سادہ سی  گھریلو  سی, نیم میلی سی  بے زبان سی عورت داخل ہو چکی ہے

ایک ایسی عورت جو أپ کی توجہ جزب کرنے کی کوشش  نہیں کرتی… ایک ایسی عورت جس کی طرف دیکھنے پر آپ اپنے آپ کو مجبور  نہیں  پاتے …..جسے ایک نظر دیکھنے کے بعد آپ اسے آ سانی سے نظر انداز  کر سکتے ہیں پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ آ پ کو چائے کا پیالہ پیش کر رہی ہے  اخلاقاً آپ اس کی طرف متوجہ ہو جائیں گے  وہ خوش اخلاقی سے دو ایک رسمی باتیں کرے گی اور پھر یا تو کمرے سے باہر چلی جائے گی یا وہیں کسی کونے میں  مودبانہ بیٹھ کر معدوم  ہو جائے گی.  .آ پ کی باتوں میں لقمہ  نہیں  دے گی آپ کی بحث میں حصہ نا لے  اپنی حرکات و سکنات سے یہ ظاہر  نہ کرے گی کہ زیر گفتگو  موضوع پر اسے بھی کچھ کہنا ہے البتہ اس کے انداز ظاہر  ہو گا کہ وہ بات کو کچھ کچھ سمجھ رہی ہے  اخلاقآ  سمجھنے  کی کوشش کر رہی ہےتاکہ اس کی بے توجہی  آ پ رنجیدہ خاطر  نہ ہوں

اول تو اس بے پر کی چیونٹی کے متعلق  آپ سوچیں گے ہی نہیں اگر خیال آ  بھی جائے تو آپ محسوس کریں گے کتنی اچھی  ہے بے چاری لیکن دو چار دن آپ اشفاق کے گھر قیام کریں گے تو آ پ دیکھیں گے کہ.  .کتنی ہے بے چاری.کونوں سے نکل نکل کر پھیلی جا رہی ہے ابھر رہی ہے  پھیلے جا رہی ہے  حتی کہ سارا گھر بانو قدسیہ  سے بھر جائے گا

آ پ دیکھیں گے کہ ابھی وہ ادھر بیٹھی ڈرامہ لکھ رہی تھی ابھی ادھر چھوٹے  سری کو کپڑے  پہنا رہی ہے.  . ہایین وہ تو باورچی خانہ میں  شلجم کا  اچار تیار کر رہی ہے.  . لو وہ تو برآ مدہ میں مشین پر کپڑا  سیتے ہوئے  محمد شاہ رنگیلے گنگنا  رہی ہے.  یا صحن میں آم کی قلمین لگاتے ہوئے نوگی کو نوزاییدہ  بلونگڑوں  کی پیدائش کا مسئلہ سمجھا رہی  ہے

ابھی  وہ تقو  کے پاس بیٹھی ڈرل کی سٹایل پر نکتہ چینی کر رہی تھی ابھی ڈراہینگ روم میں  سجی سجایی گڑیوں  کے ساتھ بے مقصد رسمی  مہمل باتوں پر گھاگ دنیا دار کی طرح  یو ں  محظوظ ہو رہی ہے جیسے واقعی خط اٹھا  رہی ہو

اےلو وہ تو چادر کی بکل مارے پران پتی کےحضور  میں مودبانہ کھڑی ان سے پڑوسن سے جا کر ملنے کی آ گیا لے رہی ہے

پتہ نہیں وہ کیسے ہر جگہ موجود  ہوتی ہے ہر بات میں دلچسپی لیتی ہے ہر موضوع پر صایب  رائے  رکھتی ہے ہر کھیل میں بچوں کی طرح  شامل ہو جاتی ہے ہر بات میں پیش پیش ہے اس کے سامنے گھر کے سارے کردار معدوم ہو جاتے ہیں… ساری چیزیں اپنی جاذبیت کھو دیتی ہیں چند ایک سال ہوئے ہم چار دوست عمر  ,مسعود, عبداللہ اور میں تفریح کے لئے کاغان گئے  ناران  کے قرب وجوار میں غیر علاقے میں گھومتے پھرتے ہمیں ایک کوہستانی مل گیا اس سے ہم نے کوہستانی زیرے کی پاؤ بھر کی پوٹلی خرید لی . . دراصل یہ پوٹلی ہم نے بخوشی نہیں خریدی نہ ہی ہم زیرے  کے شوقین تھے کوہستانی کے قد بت کی ہیبت اور اس کے چہرے کی خونخواری دیکھ کر ہم وہ پوٹلی خریدنے  پر مجبور ہو گئے

شام کے وقت ہوٹل پہنچ کر ہم نے پوٹلی کو میز پر رکھ دیا اور کھانا کھا کر سو گئے

پچھلے پہر ہم جاگ رہے تھے مسعود بولا. . .یار کمرے میں کیا ہے آ ج؟    عمر نے جواب دیا  . . ہاں یار کمر ے میں  ہے کچھ آ ج… میں نے کہا ہاں بھئی کچھ ہے جو نیند نہیں آ  رہی….. عبداللہ بولا .  .کچھ نہیں ہے بھائ  !.زیرے کی پوٹلی ہے سو جاؤ  آرام سے

صبح اٹھے  تو سارا کمرہ کوہستانی زیرے سے لبالب بھرا ہوا تھا

ناشتہ  کرنے لگے تو انڈا کوہستانی زیرے کا بنا ہوا تھا. چائے میں پتی ڈالنے کی بجائے باورچی نے زیرہ ڈال رکھا تھا.  .پانی گویا زیرے کاعرق تھا سگریٹ میں  تمباکو کی نہیں بلکہ زیرے کی پتی بھری

ہوئی تھی….. ہم سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے .   مسعود نے کہا… ٹھرو! وہ چپکے سے اٹھا میز  کے قریب گیا  دو انگلیو ں سے زیرے کی پوٹلی یوں اٹھائی جیسے مرا چوہا ہو.      . اور کھڑکی  کھول کر اسے دریا میں  پھینک دیا پھر ہاتھ جھاڑ کر واپس  کرسی پر آ  بیٹھااس کے  باوجود اس روز سارا دن ہم کوہستانی  زیرہ  کھاتے رہے, کوہستانی زیرہ  پیتے رہے اور شام کو کوہستانی  زیرے کے ڈھیر  پر سو گئے

قدسیہ اور اس پوٹلی میں  فرق صرف یہ ہے کہ زیرے کی پوٹلی اپنا راز فاش کر دیتی ہے اور اسے پھینکا  جا سکتا ہے

اشفاق احمد کے گھر بے شک جایئے لیکن میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہاں قیام نہ کیجیے ورنہ گھر لوٹ کر بھی آپ قدسیہ دیکھیں گے  قدسیہ سوچیں گے  قدسیہ  محسوس کریں  گے اور آپ کو یہ احساس  بھی نہ ہو گا کہ آ پ قدسیہ  جی رہے ہیں

قدسیہ کے ساتھ رہتے ہوئے مجھے اٹھارہ سال ہو چکے ہیں ان میں چھ برس وہ بھی شامل ہیں جب میں نے بانو قدسیہ کو دیکھا تک نہ تھا

اشفاق احمد شہر بے مثال کے ہیرو ظفر  سے قطعی مختلف ہے ظفر  کے کردار میں  شدت اور عشق ہے اشفاق میں نہ شدت ہے نہ عشق

اشفاق شعلہ نہیں چنگاری ہے راکھ میں دبی چنگاری نہ جانے بانو کا فلیتہ اس چنگاری تک کیسے پہنچا لیکن جونہی پہنچا گونگے محمد حسین مرحوم نے اسے محسوس کر کے کہا.. مفتی جی…… کچھ ہے ؟میں نے جواب دیا  ہاں محمد حسین کچھ ہے

یہ کچھ بے حد مبہم ہونے کے باوجود قطعی طور پر  واضح تھا جیسے سورج طلوع ہونے سے پہلےسفیدی پھیل  جاتی ہے. اگرچہ ہمیں یہ علم نہ ہوا کہ وہ “کچھ ‘”کون ہے.   .کیسی ہےکہاں ہے لیکن اس کا ہونا ہم نے بغیر کسی ثبوت کے, بغیر کسی دلیل کے تسلیم کر لیا

پھر  آہستہ آہستہ اشفاق کی خاموشی نے زیرے کی پوٹلی کو ہوا دی جسے  وہ سینے میں دبایے بیٹھا تھا

سارا گھر زیرے سے بھر گیا یوں ہم بانو قدسیہ سے  متعارف ہوئے اشفاق احمد باتوں کا رسیا ہے لیکن کسی موضوع سے اگر اس کا جذباتی تعلق ہو جائے تو وہ اس موضوع پر چپ ہو  جاتا ہے اشفاق کی شخصیت اور اس کی قلبی پ بیتیو ں کو جاننے کے لئے تلقین شاہ  کی باتیں نہ سنیے اس کی چپ کو سنیے.  .اس کی چپ ویسے ہی بہت متکلم ہے زیرے کی پوٹلی نے اشفاق کی خاموشی کو بالکل ہی ننگا کر دیا تھا. اگرچہ چنگاری ابھی بھی منظر عام پر نہ آئی تھی الٹا اشفاق نے اس پر مزید راکھ ڈالنا شروع کر دی

بہرحال چنگاری کی تپش میں اس قدر اضافہ  ہو گیا کہ ہم دونوں جو اشفاق کے قریب رہتے  تھے جلنے لگے.    . پھر اس جلن میں  ایسا مزہ پایا کہ محمد حسین اور میں  ,دونوں نے اس کانگڑی کو تاپنا شروع  کر دیا

ایک وسیع عریض عمارت کی تیسری منزل کی نیم چھتی میں ہم تینو ں بیٹھے تھے اشفاق نے چپ کی بکل  میں کانگڑی چھپا رکھی تھی گونگا محمد حسین بے بسی بھری نگاہو ں سے میری طرف دیکھتا اور آہ بھر کر زیر لب کہتا”مفتی جی کچھ کرنا چاہئے “اور میں  اشفاق کی طرف دیکھ کر پوچھنا “کیو ں اشفاق”    اور  اشفاق چپ چاپ بانو قدسیہ کی بھیجی ہویی کالی بلی کے سر کو سہلاتا  رہتا جس کے ماتھے پر پنجے کا سفید نشان تھا

اشفاق کے ارد گرد لاہور کا بے مثال  شہر پھیلا  ہوا تھا  شہر کی چیونٹی کو ابھی پر نہیں  لگے تھے ابھی وہ سرین کے حربے سے واقف نہیں ہوا تھا  ان دنو ں  شہر  کا آ نچل نیا نیا اڑا  تھا بے حجابی کا آ فتاب ابھی طلوع  ہو رہا تھا چاروں طرف حجاب اور بے حجابی کی دھوپ چھاؤں پھیلی ہویی تھی

اس سہ منزلہ عمارت میں کیی ایک ڈمپلز  سویمبر  رچانے  کے لئے آ تین…. اعلی نسل کی گوری چٹی گاییا ں آ  کر قلقل  قہقہے  مارتین لیکن کسی کو علم نہ ہوتا کہ وہ بظاہر  رنگیلا اور لا پرواہ نوجوان کان چھدوا کمندرے پہنے بیٹھا ہے ان دنوں  اشفاق احمد    قدسیہ  کے آ فتاب جیسا تھا

اور ہم دونوں اس کی منعکس چاندنی کے سحر  میں بھیگے ہوئے تھے اشفاق اس عمارت میں  رہا کرتا تھا جس میں  شہر بے مثال کے ہیرو ظفر  اور اس کے والد ملک صاحب مقیم تھے

“ظفر  گھر پہنچا تو ہمیشہ کی

 طرح گھر پر میلے کی سی ہربونگ چھائی  تھی یہ ایک برادری کا سردار خاندان  تھاآ نگن میں ماں کھری چارپائی پر بیٹھی پرات  بھر پیاز کاٹ رہی تھیں… پاس ہی چھوٹی توپ جیسے جسموں والی  تاییاں  ممانیا ں, خالاہیں بیٹھی تھیں

یہ عورتیں اب صرف ٹیپ ریکارد تھیں اور  ان پر جوان لڑکیوں کی بے حیا یی,زچہ بچہ کے قصے, مروجہ پود کی بے سروپا باتیں, غیر  موجود عورتو ں کی بد گوییا ں, بچوں کی طوطہ چشمیو ں کی تفصیلات کے ریکارڈ چڑھے ہوئے تھے

جوان لڑکیاں جو ان معمر عورتوں کے  ساتھ آیی تھیں  ظفر  کو دیکھتے ہی پر پھڑ پھڑاتی فاختائیں  سی اڑنے لگتین  پراسرار  قہقہے  بلند ہوتے  کھسر  پھسر  شروع ہو جاتی ظفر  کی تو جان  پر بن جاتی

دوسری منزل شادی شدہ عورتوں کے لئے مخصوص تھی پوتروں اور کیوٹی کیورا کی ملی جلی خوشبوئیں  ,غسل خانوں میں  چھوٹے چھوٹے ان دھلے جانگیے   .فراکین اور پاجامے….  باہر چھوٹے چھوٹے کموڈ پڑے ہوئے

اندر بکسوں  میں طلایی زیور, ریشمی پارچہ جات ,فرانسیسی سینٹ

تیسری منزل پر ظفر اور اس کے ابا جی رہتے تھے

فرق صرف یہ تھا یہاں  تیسری منزل پر صرف اشفاق رہتا تھا

اشفاق کے والد محترم پرانی وضع کے بزرگ تھے جو رکھ رکھاؤ  اور خاندانی عزت و وقار کے شدت سے قائل  تھے پنشن یافتہ  ہونے کے باوجود ریٹائر  نہیں ہوئے تھے اور ساری عمارت میں ان کا سکہ چلتا تھا

تیسری منزل میں دو نیم چھت کمرے تھے ایک مختصر سا صحن اور ایک گھومتا ہوا زینا جو سیدھا اوپر پہنچتا تھا جسے باقی گھر والے استعمال نہیں کرتے تھے جغرافیہ کے لحاظ سے یہ تیسری منزل رابن کروسو کے جزیرے کی حیثیت رکھتی تھی جس میں اشفاق اور بانو کی کالی بلی مقیم تھے اگرچہ یہ کمرے کتابوں ادھوری پینٹنگز اوت مختلف قسم کے گیجٹوں سے لدے ہوئے تھے لیکن جب بھی محمد حسین اور میں اشفاق سے ملنے جاتے تو ہم محسوس کرتے کے سارا گھر کالی بلی سے بھرا ہوا ہے. قدسیہ اور بانو کے ملاپ میں تین باتیں حائل تھیں پہلی یہ کہ اشفاق ایک اعلٰی  خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور اہل خانہ کا ایمان تھا اور کوئی دوسرا خاندان ان کا ہم سر نہیں.  دوسری یہ کہ اشفاق کی طبعی خاموشی نا قابل تسخیر تھی اور اس کی قوت برداشت کی کوئی انتہا نہیں تھی.  تیسری یہ کہہ قدسیہ میں خود داری کا جذبہ باقی جملہ جذبات پر ان تینوں طاقتوں کے مقابلے میں صرف ایک قوت برسر پیکار تھی وہی وقت جو شہر بے مثال پر چھائی ہوئی ہے قدسیہ کی شخصیت کوہستانی زیرے کی پوٹلی چھ سال بیت گئے.  چھ سال اشفاق  گم سم ہو کر بیٹھا رہا اس کی قوت برداشت کا سرا دکھائی نہ دے  چھ سال محمد حسین آہیں بھر بھر پوچھتا رہا مفتی جی کیا کریں اوت اشفاق سے کہتا رہا کیوں اشفاق اور اشفاق چپ چاپ کالی بلی کی طرح سع کھجاتا رہا.  چھ سال بلڈنگ کی تیسری منزل آہیں کھنچتی رہی سسکیاں بھرتی رہی اور چھ سال ان نیم چھتی کمروں میں بانو میلہ گھومنی کی طرح ادھر ادھر چٹکیاں بجاتی ہوئ گھومتی پھرتی رہی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی فاتحانہ مسکراہٹ  یہی فاتحانہ مسکراہٹ تمام رکاوٹوں پر غالب آ گئی اور قدسیہ اور اشفاق رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے  لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں ہجرت کرنی پڑی  برہمنوں نے اعلان کر دیا کہ وہ شودر ہیں اور جو کوئی ان سے راہ رسم رکھے گا اس کا دھرم بھرشٹ ہو جائے گا اور برہمنوں سے میل ملاپ کرنے جوگا نا سمجھا جائے گا لیکن آج جب بھی کوئی اہم واقعہ ہو جائے یا مشکل پڑ جائے  تو برہمن اس شودر ماہرانی کو سندیس بھیج کر بلاتے ہیں  اس کےمشورے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا اس کی رائے سب کی رائے پر فوقیت رکھتی ہے  جب شودر مہارانی برہمنوں  کے گھر میں داخل  ہوتی ہے تو دروازے کی دیلیز پر تیل ٹپکایا جاتا ہے

جب باہمنی ماں جی کا بلاوہ آتا ہے،شودر مہارانی کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں.اک افراتفری کا عالم بپا ہو جاتا ہے،کہیں ماں جی کو انتظار کی زحمت نہ اٹھانی پڑے،الله جلدی کرو اشفاق.اس کے رویے میں مزید عجز و انکساری کے پیوند لگ جاتے ہیں،مہارانی کے شودر پن پر نیا جوبن آتا دیکھ کر کبھی کبھار مجھے شک پڑتا ہے کہ کہیں شودر مہارانی برہمنوں سے انتقام تو نہیں لے رہی.

مجھے یاد ہے جب بانو قدسیہ نئی نئی اشفاق کے گھر آئی تھی.اس زمانے میں اشفاق گڈریے کا سونٹا ہاتھ میی لئے پھرتا تھا.کہہ دینا اس کی فطرت میں نہیں،لیکن جب بھی قدسیہ کسی ادبی موضوع پر بات کرتی تو اشفاق کا رویہ کچھ ایسا ہوتا کہ میری جان آلو چھیلو،خانزادوں کے پوتڑے دھوؤ،پتی کے سلیپر ڈھونڈ کر ٹھکانے رکھو،ادب کی بات چھوڑو.یہ کینچوی چپ چاپ رینگتی رہی،گڈریے کے سونٹے سے بچ بچ کر رینگتی رہی،رینگتے رینگتے وہ براڈ کاسٹنگ ہاؤس تک جا پہنچی،رینگتے رینگتے وہ ادبی جریدوں پر جا چڑھی،الحمرا کی سٹیج پر جا پہنچی اور پھر دفعتا”کایا پلٹ کر شہر بے مثال کی فضاؤں میی رنگین تتلی کی طرح اڑنے لگی.

اب جب اشفاق، تلقین شاہ کا مرصع چغہ پہنے گڈریے کا سونٹا پکڑے مبہم مگر واضح برتری کی مسکراہٹ دانتوں میں دبائے کہتا ہے ،”قدسیہ کبھی فرصت ملے تو تمہاری شہر بے مثال پڑھوں گا” تو جواب میں قدسیہ کے رویے پر عجز و انکساری کے مزید پیوند لگ جاتے ہیں،مہارانی کے شودر پن پر بہار آ جاتی ہے اور وہ برہمن پتی مہاراج کے سامنے سیس نوا  کر کہتی ہے ” جیسے بھی آپ چاہیں پتی دیو” اس وقت اسے دیکھ کرمجھے شک پڑتا ہے کہیں شودر, مہارانی برہمن دیوتا کو “کچھ کر کے تو نہیں دکھا رہی”معلوم نہیں کیوں بانو سے غائبانہ تعارف ہونے کے دن سے آج تک میں در پردہ غیر شعوری طور پر اسے ہندو دیوی سمجھتا رہا ہوں،جب وہ نیم چھت کی تیسری منزل میی چٹکیاں مارتی ہوئی گھومتی پھرتی تھی تو اس کے ماتھے پر سندور کی بندی صاف دکھائی دیتی تھی،اس کے بعد جب کبھی میرا کا بھجن”میرو تو گرو ہرگوپال”سنتا تو پیش منظر میی بانو آ کھڑی ہوتی.اب بھی جب چنگیر اٹھائے وہ باورچی خانے کی طرف جا رہی ہوتی ہے تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ پوجا کی تھالی پکڑے مندر میں بھینٹ چڑھانے جا رہی ہو،جن دنوں اس بلڈنگ کی تیسری منزل میں اشفاق اپنے ہونٹ سئیے،آنکھیں موندے دھرنا مارے بیٹھا تھا اور بانو ماتھے پر بندی لگائے اس کے گرد گھومتی پھرتی تھی تو مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے راج نرتکی مہارشی یوگی کا گیان دھیان توڑنے کیلئیے پریم ناچ ناچ رہی ہو.اس ہندنی میں دیوی بھی ہے ناری بھی،جیسے شکنتلا ساوتری اور راج نرتکی ایک ہی پردے میں اکٹھے ہو گئے ہوں،

تنہائی میں بیٹھے ان جانے میں شدھ راگ گنگنانا اس کی پرانی عادت ہے،ان کی حرکات ہر وقت مناسب لے میں ڈھلی  رہتی ہیں،کتھک او کتھا کلی ناچ کے کئی ایک مدار اسے ابھی تک یاد ہیں،حالانکہ کلاسیکی ناچ کی تربیت لئیے اسے ایک زمانہ گزر چکا ہے،اس کی شخصیت کے جملہ پہلوؤں کو یکجا کر دیا جائے تو گیشا جنم لیتی ہے.

کبھی کبھار میں محسوس  کرتا ہوں جیسے پچھلے جنم کی اس نرتگی کو گناہوں کی پاداش میں پراسچت کرنے کے لیے پٹھان کی بیوی بنا دیا گیا ہو.  جب کبھی میں بانو کے گھر جاتا ہوں تو ڈرائنگ روم میں کھانے کے کمرے میں خوانگاہ میں باورچی خانے میں ہر جگہ سکرپٹوں کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں.

یہ صوفہ  ڈیڑھ دے کر خریدا تھا.  وہ فرج دس سکرپٹوں میں آیا تھا یہ والا ٹیپ ریکارڈ دراصل پندرہ سکرپٹ ہیں.  یہ استری،  چھاپہ مشین ٹائپ رائٹر،  موٹرکار  مرغ روسٹ کرنے والا اون،  ملک شیکر،  یہ سب سکرپٹ ہیں..  بانو کے لکھے ہوئے سکرپٹ،  اشفاق کے لکھے ہوئے سکرپٹ.  ان کے باورچی کی تنخواہ  چوتھائی سکرپٹ ہے.  بچوں کی فیس اکک سکرپٹ ہیں.  موٹر کار کی قدط دو سکرپٹ میں.  ان کے گھر کے تمام تر ماہوار خرچ بیس سکرپٹ ہیں.  یہاں تک کہ پٹھان بچوں کی رگوں میں دوڑتا ہوا خون بھی سکرپٹوں سے کشید کیا گیا ہے

بانو اشفاق کی شادی ہوئی انہوں نے ایک چار دیواری کرائے پر لے لی تھی اور ایک رم کاغذ کی سلسپیں کٹوا کر ایک گز ر پنسلیں لے کر دونوں رائٹر بیٹھ گئے تھے اشفاق صرف سکرپٹ رائٹر تھا بانو سکرپٹ رائٹر کے علاوہ باورچن دھوبن پتی رکشن بھی تھی ، بیاہ کو ابھء دو دن ہوئے تھے دونوں کو محسوس ہونے لگا کہ زندگی گزرانے کے لیے محبت کا جذبہ کافی نہیں ۔  اشفاق نے کان میں پینسل لگائی ہاتھ میں سلسپیں اٹھائی اور باہر نکل کر سکرپٹ لکھوا لو سکرپٹ کی صدا لگانی شروع کر دی ۔ گھر میں دلہن سنگار کی بجائے ڈھیر سے سلسپیں کاٹ کر اور پنسلیں بنا کر بیٹھ گئی نہ جانے کس وقت آرڈر آ جائے ، اتفاق سے اشفاق کو ایک پٹھان پبلشر مل گیا اُس نے کہا بھائی کہاں خوار ہوتے ہو ہم سے گزارہ کے لیے پیسے لو اور فر نئیر کے مدرسوں کے لیے نصابی کتابیں لکھو ۔ پھر جب وہ منظور ہو جائیں گئی تُو رائلٹی کے پیسوں سے موج کرنا ۔ بانو اور اشفاق دلہا دلہن کا رول بالا طاق رکھ کر منشیانہ کام میں مصروف ہو گئے ۔ بدقسمتی سے کتابیں منظور نہ ہوئیں بس ہفتے دس دن کا گزارہ ہو گیا ، اُس کے چند سال بعد اشفاق پشاور گیا اتفاق سے ایک دکان پر اُسے وہی کتابیں پڑی ملی تحقیق کرنے پر پتہ چلا اگرچہ فرئنیر والوں نے ان کتابوں کو منظور نہ کیا لیکن آزاد کشمیر میں انہیں منطور کر لیا گیا اشفاق اپنے پرانے محسن سے ملا،

“خو عقل کی بات کر رائلٹی کی بات فرئنیر کے لیے ہوئی تھی کسی اور جگہ کے لیے نہیں “

اشفاق قدسیہ پاکستان کے اولین واحد سکرپٹ رائٹر ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا سکرپٹس ہیں ، اشفاق بانو دونوں کے دوستوں مداحوں نے کئی بار کہا یہ سکرپٹ بازی چھوڑو اور نوکری کر لو لیکن دونوں انکار کرتے بانو تُو نوکری کے حق میں نہیں اور اشفاق اس سے خائف ہے

  دس سال کی مسلسل محنت کے بعد انہوں نے سکرپٹوں کے بل بوتے پر گھر بنا لیا ۔ ایک ایسا گھر جو چیزوں سے بھرا ہوا ہے سجا ہوا نہیں سجانے کی کئی بار کوشش کی لیکن پھر متفقہ فیصلہ ہوا کہ چھوڑو ۔

شیخ چلی کی کٹیا کی صفوں سے بنی ہو چھت بالکل ہی بوسیدہ ہو کر جگہ جگہ سے ٹپکنے لگی ،  شیخ نے اسے قائم رکھنے کے لیے جگہ جگہ تھم لگا دیئے یہ تھمیاں اتنے زیادہ ہو گئے کہ جھونپڑی میں جانا یا بیٹھنے کی جگہ نہ رہی ، ایک دفعہ جب بارش ہو رہی تھی شیخ کٹیا کے باہر بیٹھے بھیگ رہے تھے کسی راہ گیر نے پوچھا شیخ آپ کٹیا کے اندر کیوں نہیں جا بیٹھتے شیخ صاحب نے جواب دیا بھائی اگر اندر بیٹھنے کی جگہ ہوتی تُو کٹیا میں اور تھمیاں نہ لگا دیتے ۔

بانو کے گھر میں اگر جگہ ہوتی تُو وہ چند سکرپٹ لکھ کر اشفاق کے بہلاوے کے لیے دو چار مزید گجٹ نہ منگوا دیتی ۔

 اشفاق احمد تلقین شاہ کے پر وقار چغے کے باوجود معصوم بچہ ہے ۔ زندگی میں اُسکے صرف دو کام ہیں سکرپٹ لکھتا ہے یا گنیجنوں اور مشینوں سے کھیلتا ہے یہ اُس کے گلدان ہیں

پتی بھگتنیں جانتی ہیں کام گھر سے بے تعلق کرتا ہے کھیل گھر کی طرف کھینچتا ہے ، بانو نے کبھی اشفاق کو سنوارنے کی کوشش نہیں کی وہ ہر وقت اُسے بگاڑنے کی دھن میں لگی رہتی ہے اس کے گرد گلدانوں کی بھیڑ لگا دیتی ہے گیکسو بے بی خوش ہے کہ وہاں ڈالڈا بھی ہے اور مامتا بھی کتنی معصومیت ہے اشفاق میں ،

اپنی بے کراں معصومیت کی وجہ سے اشفاق سکرپٹوں کے سمندر میں ڈوب گیا ہے بانو نے سکرپٹوں کو ہی چپو بنا لیا ہے اس بحر مشیانہ کو پار کرکے اہل کرم اک تیرے آنے سے اور دھواں سے ہوتی ہوئی وہ شہر بے مثال تک آ پہنچی ہے ، اور میرا اندازہ ہے وہ جلد ہی شہر لا زوال میں داخل ہو جائے گی  ۔

ایک معاملہ میں اشفاق بہت سیانا ہے اُس نے بانو قدسیہ کی شہر بے مثال نہیں پڑھی وہ کبھی نہیں پڑھے گا ہمیشہ گڈریے کا سونٹا تھامے تلقین شاہ کا چغہ پہنے گلدان اٹھائے گھر میں گھومتے کہتا رہے گا ، قدسیہ فرصت ملی تُو میں تمہاری شہر بے مثال ضرور پڑھوں گا۔

شہر بے مثال پڑھنے کے بعد میں نے محسوس کیا ہے کہ کاش میں یہ کتاب نہ پڑھتا لیکن اب سوائے اس کے اور کیا کیا جا سکتا ہے کہ میں آپ دست بستہ عرض کروں کہ للہ شہر بے مثال نہ پڑھیئے ، آپ نہیں جانتے کہ اگر جینے کی آرزو پھر سے انگڑائیاں لینے لگے تُو کتنی مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں ۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button