Roghni Putlay

حلوائی کی دوکان – روغنی پتلے

کتنی عجیب بات ہے

زندگی بھر میری تمنا رہی کہ کوئی مجھ سے سیدھی بات کرے اور میں اُسے سیدھا اور صاف جواب دوں ۔

لیکن اب جب انور نے مجھ سے دو ٹوک اور کھُلی بات کی ہے۔تو مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا جواب دوں ۔ صبح سے سوچوں میں پڑی ہوں ۔سوچ سوچ کر ہار گئی کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ۔

میری کیفیت اُس پنچھی کی سی ہے جو سالہا سال رکھ رکھاو کے پنجرے میں آزادی کی تمنا میں تڑپتا رہے ۔ لیکن جب پنجرے کا دروازہ کھُل جائے تو خود میں اُڑان کی طاقت نا پائے ۔

دراصل انور کی سیدھی بات سُن کر میرے ذہن کا فیوز اُڑ گیا ۔ کیسے نا اُڑتا ۔ زندگی بھر کبھی سیدھی بات نا سُنی تھی ۔ گھر والے ہمیشہ جلیبیاں تلتے رہے ۔ جوانی راستہ تلاش کرو کی بھول بھلیاں میں بیت گئی ۔ ہر بات سُن کر سوچتی پتا نہیں بات کا دوسرا رُخ کیا ہے ۔ ہر بات میرے لئے جادو کا پٹارہ ہوتی ۔ پہلے خالی پٹارہ دکھا دیا جاتا پھر جب بات کھُلتی تو اُس میں سے پھُررر کبوتراُڑ کر باہر آ جاتا ۔

خالی پٹاروں سے اتنے کبوتر اُڑ کر باہر نکلتے دیکھے ۔اتنے کبوتر کہ میں سمجھنے لگی جب تک اندر کبوتر نا ہو پٹارہ خالی ہو ہی نہیں سکتا ۔

مجھے پتا ہے کہ انور کی بات میں کوئی چھل بل نہیں ۔ پھر بھی میں کبوتر کی منتظر بیٹھی ہوں کتنی بدنصیب ہوں ۔

میری کہانی بڑی عام سی ہے ۔ صرف میری ہی نہیں ۔ کھاتے پیتے گھرانے کی ہر جوان لڑکی کی ہے ۔

میرا نام ثانیہ ہے میں کوئی خدوخالی لڑکی نہیں ہوں ۔ مطلب یہ کہ دہن چھوٹا ہے ٹھوڑی نکلتے ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ آنکھیں کشتیاں نہیں ۔ بنٹوں کی طرح گول ہیں ۔ ناک چھوٹی ہونٹ لٹکا ہوا ۔ بیڑ اونچا اور رنگ سفید کیا گندمی بھی نہیں شدھ سانولا ۔ لیکن خدوخال کون دیکھتا ہے آج کل ۔ خدا داد حسن کے دن ختم ہوئے ، اب تو خود ساختہ حسن چلتا ہے ۔ انگ انگ میں شوخی ہو حرکت میں تڑپ ہو جسم میں پارہ بھرا ہو ۔ بس مار لیا میدان اور اگر بات میں بے تکلفی بھی ہو ، جھجھک نا ہو تو کیا بات ہے ۔

جس گھر میں میں نے پرورش پائی وہ صرف کھاتا پیتا ہی نا تھا ۔ بلکہ کمفرٹس ہی کمفرٹس ۔ بس جھیل میں کنول اُگے ہوئے تھے ۔ سازو سامان کی کوئی حد نا تھی کام کالج کی مصیبت سے چُھٹی نوکروں کی ایک ٹیم تھی ۔ بس ایک ہی بندش تھی ۔ رکھ رکھاو کی بندش وہ بھی اکیلے میں نہیں ۔ بھئی نو دولتئے جو تھے ۔ کوئی آ جاتا تو بندش ہی بندش ۔ یوں ہیلو کرو ۔ یوں بیٹھو ۔ یو دیکھو ۔ یو بات کرو ، مطلب یہ کہ خود کو پریزینٹ کرو ۔ چینی کی پلیٹ میں رکھ        کے دوسرے کے سامنے پیش کرو ۔

چینی کی پلیٹ میں رکھ کر پیش کرنے کے فن میں امی کو کمال حاصل تھا ۔ وہ باتوں کی ایسی ایسی جلیبیاں تلتیں کہ حد نہیں ۔ بالکل ہی حلوائن تھیں ۔ باتوں کے ہار پروتے ہوئے ایسی ایسی کلیاں ٹانک جاتیں کہ میں ششدر رہ جاتی ۔ دو ایک منٹ خود کو سنبھالنے میں لگتے ۔

امی کو ملکیتیں گنوانے کا بڑا شوق تھا ۔ انہیں یہ بالکل گوارہ نا تھا کہ دوسرا بڑھ چڑھ کے بات کرے ۔

زمیندارے کی بات چل نکلتی تو امی جھٹ سے کسی دور دراز مقام پر اپنے چار مربعے ایجاد کر لیتیں ۔ ہاں بہن زمیندارے کی مصیبتوں کی حد ہے کوئی – اپنے چار مربعے تو خیر پور کے قریب ہیں ہمارے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں ۔

کون ہر مہینے اتنی دور جا کر ان کی دیکھ بھال کرے ۔

ولایت میں اونچے عہدوں پر فائز رشتہ داروں کی بات چھڑ جاتی تو امی جھٹ سے ایک آئیل انجنئیر اختراع کر لیتیں جسے تیل کمپنی نے ہاتھ جوڑ کر امریکہ میں روکا ہوا تھا ۔ اس ڈر کے مارے کہ اگر واپس وطن چلا گیا تو کمپنی کا بھٹہ بیٹھ جائے گا نہلے پر دہلا مارنا امی کا من بھاتا مشغلہ تھا ۔

لیکن وہ خالی جلیبیاں ہی نہیں تلتی تھیں ۔ اس بات کا بھی خیال رکھتیں کہ ان کا کڑاکا ہو ۔ایسا جیسے ڈیوڑی میں ہوتا ہے ۔

ابا کا طریقہ ذرا مختلف تھا ۔ وہ بڑ نہیں ہانکتے تھے ۔ ملکیت نہیں جتاتے تھے ۔ اُن کی بات میں ایک عجیب قسم کا عجز تھا ۔ “میں تو کچھ بھی نہیں “ وہ اس انداز سے ادا کرتے ۔ کہ سُننے والے کو لگتا جیسے سبھی کچھ ہوں لیکن طبعی عجز کی وجہ سے ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔

املاک کی بات ہوتی تو مسکرا کر کہتے “ جناب املاک تو شانوں پر پڑے بوجھ کے مصداق ہے ۔ جو آن پڑا ہے ۔ وہی نہیں اُٹھایا جاتا ۔ مزید کی تمنا کون کرے ۔”

خالی عجز ہی نہیں ۔ ابا میں اسلام کا رنگ بھی نمایاں تھا ۔ کوئی آ جاتا تو اُن کا اسلام شدت سے اُبھرتا ۔

 یوں جیسے آنچ تیز ہو جائے تو دودھ میں اُبال آ جاتا ہے ۔

وہ مسئلے نہیں کرتے تھے ۔ بحث نہیں چھیڑتے  تھے ۔ ناہی تلقین کرتے ۔

اوّل تو بات میں جگہ جگہ مناسب مقام پر الحمدللّٰہ ، انشااللہ ، بسم اللہ کی کلیاں ٹانکتے رہتے ، سُننے والوں کو گمان ہوتا کہ صراط مستقیمئ ہیں ۔ مگر ہیں گُپت برملا اظہار گوارہ نہیں ۔ یاد حق دل میں رہے کی مصداق ۔

بہر صورت امی ابا ۔ دونوں ہی حلوائی تھے ۔ جلیبیاں تلنے میں تاک ۔ باتوں کے دھنی اثر ڈالنے میں مشتاق ۔ امی بات بڑھا چڑھا کر اثر پیدا کرتی ۔ ابا عجز کا پردہ ڈال کر اپنی عظمت کا جادو جگاتے ۔ بات کے پس پشت صراط مستقیم کا ایسا دورا بجاتے کہ توجہ بول سے ہٹ کر تال پر مرکوز ہو جاتی ۔ بچپن میں تو یہ جلیبیاں تلنے کا شُغل مجھے بہت اچھا لگا ۔ سوچتی کہ میں بھی کوئی اپنا منفرد انداز اپناؤں اور لوگوں کی توجہ لوٹ کر لے جاؤں ۔ لیکن جلد ہی ، جب میں جوان ہو گئی تو حلوائی کی دوکان میں ایک نیا رنگ اُبھرا ۔

ویسے تو گھر میں مجھے مکمل آزادی تھی ۔ لیکن اگر میں کسی کلاس فیلو کی بات کرتی تو امی کے کان کھڑے ہو جاتے جھٹ پوچھتیں کس کا بیٹا ہے وہ ۔ باپ کیا کام کرتا ہے ۔ اس پر میں بہت حیران ہوتی ۔

اُس روز انور مجھے نوٹس کی کاپی دینے آیا ۔ تو امی پنجے جھاڑ کر اس کے پیچھے پڑ گئی ۔ یوں اُسے دیکھنے لگی جیسے لیباریٹری میں کیڑے کو خوردبین کے نیچے رکھ کر دیکھتے ہیں ۔ پھر اُس پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی ۔

“تیرے ابا کیا کام کرتے ہیں ۔ افسر ہیں یا زمیندار ہے ۔”

انور بیچارہ بوکھلا گیا ۔وہ تو ایک بیوہ کا بیٹا تھا ۔ جو محنت مزدوری کر کے اُسے تعلیم دلوا رہی تھی ۔ امی کی باتوں کا کیا جواب دیتا ۔ بے چارہ بوکھلا گیا ۔ ادھر میں حیران کہ وہ تو میری ریکویسٹ پر نوٹس کی کاپی دینے آیا ہے ۔یہ امی اُس کا حسب نصب کیوں ہوچھنے لگی۔

جب وہ چلا گیا تو امی نے مجھے پاس بٹھا لیا ۔ بولی، ایسے لڑکوں کو منہ نا لگایا کرو ۔

مجھے غُصہ آ گیا ۔ میں نے کہا۔ امی وہ تو ہماری کلاس کا فرسٹ ڈویژنر  ہے ۔

پڑا ہو ۔ امی نے جواب دیا ۔ تُم نے کیا مقابلے کا امتحان دینا ہے ۔

اُس وقت تو بات میری سمجھ میں نا آئی ۔ پھر ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ بھانڈا پھوٹ گیا ۔

ہوا یوں کہ ہمارے ساتھ والے بنگلے کی گرین کاٹیج میں نئے کرایہ دار آ گئے ۔ کسی تیل کمپنی کے ڈائریکٹر تھے ۔ ان کے آتے ہی گرین کاٹیج کا حُلیہ بدل گیا ۔ سارے گھر میں یہ موٹا کارپٹ بچھ گیا ۔ کمروں میں ،گیلریز میں ، سیڑھیوں ہر جگہ ڈیکوریشن پیسز رکھ دئے گئے ۔ سٹنگ روم کی ایک دیوار پر قد دیوار سوئٹزرلینڈ کا ایک منظر پیسٹ کر دیا گیا ۔ ڈرائنگ روم میں انوکھے پردوں کے گملے رکھ دیے گئے ۔

گھر میں صرف تین افراد تھے مسٹر این عنائت اُن کی بیگم آمنہ عنائت اور اُن کا اکلوتا بیٹا عین ۔

نئے پڑوسیوں کے آتے ہی گویا ہمارے گھر میں بھی انقلاب آ گیا ۔ امی ابا جو کبھی ایک ساتھ نہ بیٹھے تھے ۔ کان سے منہ لگا لگا کر باتیں کرنے لگے ۔ اُن کی سرگوشیوں کا انداز ایسا تھا جیسے لو برڈز ہوں ۔ یااللہ یہ کیا ہوا ۔میں تو حیران رہ گئی ۔ کیا وقت کا دھاراالٹا بہنے لگا ۔مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کون سا موضوع ہے جس پر دونو ہینڈ اینڈ گلو بنے بیٹھے ہیں ۔

کئی ایک بار میں اُن کےسر پر جا کر کھڑی ہوئی ، مگر بیکار ۔ میری آہٹ سُن کر وہ چُپ ہو جاتے اور پھر بات بدل دیتے صرف یہی نہیں ہمارے گھر میں کئی ایک اور تبدیلیاں بھی عمل  میں آئیں ۔ نئی سجاوٹیں ۔ نئے قالین ، نئے پردے ۔

امی تو گویا آمنہ عنائت پر بک گئیں ۔ ہر وقت آمنہ کے تزکرے ، اُس کی تعریفیں ، ہئے کتنی خوش اخلاق خاتون ہے ۔ سلیقہ تو اس پر ختم ہے ۔ پھر وہ دفعتا آنٹی بن گئی ۔ امی نے گرین کاٹیج کے پھیرے لینے شروع کر دئے ۔ اتنے تعلقات بڑھائے کہ تکلفات سمٹتے گئے۔گھر میں کوئی چیز آتی آنٹی کا حصہ الگ کر دیا جاتا ۔ اچھی چیز پکتی تو پہلے آنٹی کو چکھائی جاتی ہر مہینے آنٹی کی دعوت کا اہتمام کیا جاتا خیر امی کی تو عادت تھی کہ جس پر ریجھ گئی۔ اُسے ماتھے پر لٹکا لیا ۔

جہاں تک امی کا سوال تھا وہ تو خیر ٹھیک تھا ۔ دکت یہ ہوئی امی نے مجھے باربار آنٹی کے ہاں بھیجھنا شروع کر دیا ۔ ثانیہ ذرا آنٹی سے یہ پوچھ آو ۔ ثانیہ ذرا آنٹی کو یہ دے آو ثانیہ ذرا دیکھو تو آنٹی فارغ ہیں ۔ ہائیں ثانیہ ۔ تو صبح سے آنٹی کے طرف نہیں گئی ۔ میں حیران کہ مجھے بار بار آنٹی کے پاس کیوں بھیجھا جا رہا ہے ۔ بات سمجھ میں نا آئی ۔ پھر ایک روز بلی پھُدک کر تھیلے سے باہر نکل آئی ۔

اُس روز میں اور امی دونو باہر پلاٹ میں بیٹھے ہوئے تھے ۔امی کچھ بن رہی تھی میں پڑھ رہی تھی ۔ گرین کاٹیج کی طرف سے موٹر سٹارٹ کرنے کی آواز آئی ۔ میں نے اُدھر دیکھا آنٹی اور انکل موٹر میں کہیں باہر جا رہے تھے ۔

کچھ دیر کے بعد امی نے سر اُٹھایا بولی “ ثانیہ ذرا آنٹی سے کنفرم کر آو کہ آج شام فلم کا پروگرام قائم ہے نا ۔ “

میں نے حیرت سے امی کی طرف دیکھا ۔ میں بے کہا امی آنٹی اور انکل  تو ابھی ابھی باہر گئے ہیں ۔

اچھا، وہ بولی ۔ تو پھر کیا ہے ۔ عین تو گھر پر ہی ہے نا اُس سے کنفرم کر لو ۔

دفعتا کڑاہی میں جلیبی شوں شوں کرنے لگی ۔

اچھا تو مجھے گلاب جامن بنا کر چینی کی پلیٹ میں رکھ کر عین کی خدمت عالیہ میں پیش کیا جا رہا ہے ۔ دفعتا میری آنکھوں سے پردے ہٹ گئے ۔

بلی تھیلے سے باہر نکلی تو کیا دیکھتی ہوں کہ کڑاہی جلیبیوں سے بھری ہوئی ہے ۔

ثانیہ تو ذرا عین کے پاس بیٹھ میں ابھی آئی ۔

بیٹی پڑھائی میں کوئی مشکل ہو تو عین سے جا کر پوچھ لیا کر۔ ایم اے ہے وہ ۔ تیری آنٹی کہتی ہے ہمیشہ جماعت میں فسٹ ڈویژن لیا کرتا تھا ۔

بیتی ہوئی باتیں ایک ایک کر کے سامنے آ کھڑی ہوئیں ۔

ارے تو کیا یہ سب نئے ڈیکوریشنز غالیچے پردے میری ہی وجہ سے بدلے گئے تھے ۔ یہ سارا ارینجمینٹ مجھے عین کی جھولی میں ڈالنے کے لئے ہے اور پھر امی ابا کی سرگوشیاں ۔

اس روز حلوائی میری نگاہ میں بالکل ننگے ہو گئے۔

اگر میں خدوخالی لڑکی ہوتی تو چُپکے سے گلاب جامن بن کے پلیٹ میں سج جاتی ۔ مشکل یہ ہے کہ میں سیلف میڈ گرل ہوں ۔ خداداد حُسن پر تکیہ نہیں کیا ۔ بڑی محنت سے خود میں جازبیت پیدا کی ہے ۔ جو زور بازو سے بنی ہو اور وہ گلاب جامن نہیں بن سکتی وہ جھولی پھلانے کی قائل نہیں ہوتی ۔ اپنے ہاتھ سے توڑ کر کھانا پسند کرتی ہے ۔

اگر میں چاہتی تو عین بے چارے کی کیا حیثیت تھی ۔ ایسا لشکارا مارتی کہ سُدھ بُدھ ماری جاتی ۔ ایسی جلیبی بنتی جسے دیکھ کر عمر بھر منہ سے رال ٹپکتی رہتی ۔ لیکن مجھے عین پسند نا تھا ۔ بھدا سا جسم ، میڈیا کر ذہن ، افلوانس زدہ بے حسی ، بالکل ہی “ بڈاوا” نظر آتا تھا اسے تو ایک گوری چٹی خدوخالی لڑکی چاہئے تھی ۔ جو ہر وقت رضامندی بھری مسکراہٹ مسکراتی رہے ۔ بن سج کر بیٹھی میاں کا انتظار کرتی رہے ۔ وہ تو شُکر ہے چند ہی دنوں میں عین کا بھید کھُل گیا کہ وہ روزی کے گھر آتا جاتا ہے روزی کے گھر کو امی اچھا طرح جانتی تھی کہ وہاں جو جاتا ہے پھر لوٹ کر نہیں آتا ہے ۔ روزی کی ایک نہیں چار جوان بیٹیاں تھیں ۔ چینی کی پلیٹ میں چار گلاب جامن ۔ یوں عین کا قضیہ ختم ہوا ۔

پھر دفعتا منظر بدلا ۔ پڑوس میں چودھری صاحب آ بسے۔

بیٹھے بٹھائے ابا کو شکار کا شوق چر آیا ۔ اُنہوں نے ایک بندوق خرید لی اور چوہدری صاحب کی ساتھ باقاعدہ شکار پر جانے لگے ۔

گھر میں شکار کا گوشت آنے لگا ۔ پھر ڈرائینگ روم میں ہرن کے سینگ آ ویزاں ہو گئے ۔ ایک اونچے سٹول پر بھس بھرا عقاب آ بیٹھا ۔ نیچے کارپٹ پر شیر کی کھال بچھ گئی ۔ میں تو حیران رہ گئی ۔ یہ کیا ہوا ۔

باورچی خانے کی طرف نگاہ اُٹھائی تو کیا دیکھتی ہوں کہ چولہے پر مٹی کی اتنی بڑی ہانڈی پڑی ہے ۔ کونے میں دہی بلوہنے کی چاٹی رکھی ہوئی ہے ۔ اور امی نوکر جس سے بھینس خریدنے کے منصوبے باندھ رہی ہے ۔ لو یک نا شُد دو شُد ۔

پھر اُس کایا  پلٹ کا بھید کھُل کر سامنے آ گیا ۔ چوہدری صاحب اور چوہدرائن ہمارے گھر کھانے پر آ گئے ۔ میز پر ثابت ماش ، گوشت کی کڑاہی ، پائے ، رس کی کھیر اور سرسوں کا ساگ ۔ مکھن کے پیڑے کے ساتھ سامنے آ گئے ۔

کھانے کے بعد امی نے اپنی کڑاہی چڑھا دی ۔ کڑچھا چلنے لگا ۔ امی پہلے تو جگہ جگہ اپنے مربعے قائم کرتی رہیں ۔ پھر بات کا رُخ میری طرف مُڑ گیا ۔

ثانیہ اتنی سُگھڑ ہے کہ حد نہیں ۔

باورچی خانہ کا حساب کتاب بس ثانیہ ہی جانے ۔

جب ثانیہ چاٹی کو ہاتھ لگاتی ہے تو مکھن آپ ہی آپ پیڑا بن کر اُبھر آتا ہے ۔اوہو۔ تو یہ بات ہے ۔ ثانیہ کو مکھن کا پیڑا بنا کر چینی کی پلیٹ میں رکھ کر چودہرائین کو پیش کیا جا رہا ہے لیکن کس کے لئے یہ بھید بھی جلد ہی کھُل گیا ۔

ایک دن چوہدری کا بیٹا علی احمد مونچھیں لٹکائے سامنے آ بیٹھا ۔ اور امی اس کے سامنے بیٹھ کر ثانیہ کی گر دان پڑھنے لگی ۔ علی احمد تو بالکل ہی پینڈو تھا ۔ امی کی ہر بات پر بے تکلفانہ بھونڈا قہقہہ لگاتا اور سر کھُجانے لگتا ۔ اُسے دیکھ کر میں تو لرز گئی ۔ یااللہ کیا میرا مستقبل کڑچھا اور کڑاہی کے زور پر ہی بنے گا ۔

شائد اللہ نے میری سُن لی ۔ کچھ ذیادہ ہی سُن لی ۔

ابا پر انکوائری انسٹیٹیوٹ ہو گئی۔ اور اُن کی ساری پراپرٹی ضبط کر لی گئی ۔ وہ اس صدمے کو برداشت نا کر سکے ۔ لہٰزا ہارٹ اٹیک کا شکار ہو گئے ۔

امی بے چاری چار ہی دن میں مرجھا کر رہ گئیں ۔ سارا رنگ و روغن اُڑ گیا۔ نیچے سے ایک کھوسٹ بُڑھیا نکل آئی ۔ نہ وہ کڑاہی رہی نہ کڑچھا نہ جلیبیاں ۔

امی کو سہارا دینے کے لئے میں نے ایک دفتر میں نوکری کر لی ۔ میں بھلا نوکری کے لئے کہاں  ماری ماری پھرتی وہ تو اتفاق سے انور مل گیا کہنے لگا ہمارے دفتر میں ایک جگہ خالی ہے اگر چاہو تو آکر جائن کر لو ۔ یوں گھر بیٹھے بیٹھے خواہ مخواہ بور ہو رہی ہو ۔ اُسے ہمارے حالات کی خبر تھی نا ۔ یوں مجھے اس کے توسط سے نوکری مل گئی ۔

چار سال گُزر گئے ۔

شروع شروع میں دفتر میں مشکلات پیش آئیں ۔ کچھ لوگوں نے سمجھا کہ اکیلی لڑکی ہے چلو قسمت آزمائیں ۔ کچھ نے آگے بڑھ کر جلیبیاں تلنی شروع کیں ۔ کچھ نے گلاب جامن کی امید پر رال ٹپکائی ۔ پھر اُنہیں بات سمجھ میں آ گئی کہ ادھر خوش وقتی نہیں چلے گی ۔ لہٰزا سب نارمل ہو گئے ۔ انور دور سے ہی دیکھتا رہا ۔ نہ شورا شوری نہ سرد مہری یوں جیسے میں لڑکی تھی ہی نہیں ۔ لیکن کبھی کبھار مجھے ایسے لگتا جیسے وہ مجھے دیکھ نہیں رہا بلکہ نگاہوں سے تول رہا ہے ۔

کل شام کی بات ہے کہ انور میرے پاس آیا بولا ۔ ثانیہ فارغ ہو کیا ؟

کیوں؟ میں نے پُوچھا ۔

بولا ۔ذرا میرے ساتھ چلو۔

کہاں ؟

ایک کام ہے ۔

وہ اس قدر سنجیدہ تھا کہ مزید پوچھنے کی ہمت نا پڑی اور میں اُس کے پیچھے پیچھے چل پڑی ۔

دفتر کے پچھواڑے کے پلاٹ میں وہ رُک گیا ۔

میں حیران یااللہ یہاں کیا کام ہو سکتا ہے بھلا ۔

بیٹھ جاؤ ۔ وہ بولا ۔

میں پتھر کے بینچ پر بیٹھ گئی ۔ وہ نگاہیں جھُکائے میرے سامنے کھڑا رہا ۔

دیر تک وہ خاموش رہا ۔ یوں جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو لیکن کیہ نا پاتا ہو ۔

آخر وہ بولا ۔ دیکھو ثانیہ میرے پاس تُمہیں دینے کے لئے کِچھ نہیں ہے ۔ کچھ بھی نہیں ۔ ایک پُرانا بوسیدہ گھر ہے اور ایک بوڑھی ماں ہے ۔ وہ اتنی بُوڑھی ہو چُکی ہے کہ کام کاج کرنے کے قابل نہیں رہیں ۔ وہ رُک گیا ۔ دیر تک رُکا رہا ۔پھر بصد مشکل بولا ۔ ثانیہ تُم میرے ساتھ شادی کرو گی ، میں تو ہکی بکی رہ گئی ۔ میرے گردو پیش دھندلکا چھا گیا ۔ پھر اس دھندلکے میں انور کی آواز آئی ۔

سوچ لو ثانیہ سوچ لو ۔ اگر تُمہیں گوارہ ہو تو مجھے بتا دینا ۔ میں انتظار کروں گا ۔

پھر اس دھندلکے میں سے ایک دیا اُبھرا ۔ ابھرتا چلا گیا ۔

مجھے نہیں پتہ میں وہاں کتنی دیر بیٹھی رہی ۔ بس بیٹھی رہی مجھے خیال بھی نا تھا کہ انور شادی کا پیغام دے گا ۔

کل سے میں ڈور کے گُچھے کی طرح اُلجھی بیٹھی ہوں کوئی سرا نہیں ملتا ۔

زندگی بھر مجھے تمنا رہی کہ کوئی مجھ سے سیدھی اور صاف بات کرے ۔ سچی بات کرے ۔ سچی بات ہونٹوں سے نہیں ۔ زندگی بھر میری خواہش رہی کہ مجھے چینی کی پلیٹ میں رکھا ہوا گلاب جامن نا سمجھا جائے ۔ لیکن اب انور کی بات سُننے کے بعد مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کروں ۔ دھندلکا بڑھتا جا رہا ہے ۔ لیکن وہ مدھم سا دیا ۔

امی سے بات کروں وہ تو کرنی ہی پڑے گی ۔ کروں گی ۔ امی بیچاری کا کیا ہے ۔ وہ امی تو رہی ہی نہیں ۔ نا تاج رہا نا تخت بیچاری سارا دن دھوپ میں کھاٹ پر بیٹھ رہتی ہے ۔ کسی بات میں دخل نہیں دیتی ۔ منہ پر یوں جُھریاں پڑ گئیں ہیں ۔ جیسے کوئی  بلوری گُلدان ریزہ ریزہ ہو جائے لیکن ریزے الگ نا ہوں چمٹے رہیں ۔ اور ایسا لگے کہ ہاتھ لگایا تو گر کر ڈھیر ہو جائیں گے ۔

میں اُٹھ کر امی کے پاس جاتی ہوں ۔ امی جان ۔ امی جان چونکتی ہیں میری طرف دیکھتی ہیں ۔

امی ہمارے دفتر کا ایک لڑکا آپ سے ملنا چاہتا ہے ۔ امی یہ سُن کر بالکل ہی دُھندلا جاتی ہے ۔ مجھ سے !

“جی امی “ امی حیرت سے میری طرف دیکھتی ہے ۔

امی اُس کا باپ فوت ہو چُکا ہے ۔ ماں بہت بُوڑھی ہے آ نہیں سکتی ۔ اس لئے وہ لڑکا خود ہی آئے گا ۔

دفعتا امی کی آنکھ میں چمک لہراتی ہے ۔ اچھا!

چلیں کوشش کرتی ہوں کہ شرماوں نہیں ۔ امی وہ لڑکا پیغام دینا چاہتا ہے ۔

امی کا سارا چہرہ دمک اُٹھتا ہے ۔ چہرے کی سلوٹیں سمٹ کر ناپید ہو جاتی ہیں ۔ گردن کھٹک سے اُبھرتی ہے اور وہ یوں اُٹھ کر بیٹھ جاتی ہے جیسے آج سے چار سال پہلے کی امی ہوں ۔

کون ہے وہ ، امی پُوچھتی ہے ۔ پھر قریب ہو کر زیر لب کہتی ہے کتنے مربعے ہیں ۔

میں ہکی بکی رہ جاتی ہوں ۔ نہیں امی ، میرے منہ سے نکل جاتا ہے ۔

تو کیا کوئی بڑا افسر ہے ؟ وہ پُوچھتی ہیں ۔

اب میں کیا جواب دوں ۔

افسر نہیں تو کیا کاروبار ہے ۔ کارخانے دار ہے ۔

میں یوں کھڑی کی کھڑی رہ جاتی ہوں جیسے پتھر کی بن گئی ہوں ۔ مجھے خاموش دیکھ کر امی کہتی ہیں ،اُسے کہنا کل کسی وقت مجھ سے مل لے ۔

میں کر لوں گی اُس سے بات ۔

جب سے میں نے امی سے بات کی ہے اس کی تو کایا پلٹ گئی ہے۔اپنی پرانی زنگ آلود کراہی میں تیل نہیں    لیکن وہ یوں بیٹھی ہے جیسے جلیبیاں تلنے کی مشق کر رہی ہو ۔ اُسے دیکھ کر میرے ارد گرد کا دُھندلکا بڑھتا جا رہا ہے بڑھتا جارہا ہے اور وہ دیا ۔ اور وہ دیا یوں جیسے اُس کا دم گھٹ رہا ہو ۔ مجھے اُس دئے پر ترس آ جاتا ہے اور میں خود پھونک مار کر اُسے بجھا دیتی ہوں ۔ تاکہ خود کو محفوظ کر لوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button