لکھ یار

خانہ بدوش…… آسی غازی

”خانہ بدوش “
گھر شانوں پر ۔۔۔ تو کیا صرف گھر شانوں پر اٹھاۓ پھرتے ہیں گردش آثار خاک سوار لوگ ۔۔ جو سر شانوں پر اٹھاۓ ہوۓ ہو وہ خانہ بدوش نہیں ہوگا کیا ۔۔ خانہ میں کیا ہے گھر در زر بر بسر ۔۔گھر میں کیا یہی کچھ ہوتا ۔۔ گھر میں کیا کچھ نہیں ہوتا اے سب سے اچھے دوست۔۔۔ گھر میں تو تو بھی ہے چراغ در چراغ در چراغ ۔۔
سینے میں تو ہو بھی ہے دھواں اور بو بھی ہےآثار در آثار در آثار ۔۔۔

 

اشک ستارےشام

نہر کنارے جام عمروں کی گیندیں وقت کے ہات الٹے خیموں میں دھنسی زات چترائ یادیں بکل اوڑھے خواب سینکتے ہات چمکیلے لب زہریلی بات آزار در آزار در آزار۔۔۔
قدم سانسوں کی مانند روکے نہیں رکتے قلم آنکھوں کی مانند سوتے جاگتے رہتے ہیں روح سے دل کے تمام رستے اجڑے پجڑے رہتے ہیں خوابوں کے بہی کھاتے بڑھتے چلے جاتے صداٶں سے بندی خانے بھرتے چلے جاتے جسم بہکے لہجے دہکے جزبے روکھے آنکھیں جھوٹی بازار در بازار در بازار ۔۔۔
جہاں نئ بستیاں آباد ہو چکی ہیں نۓ چہرے پرانے جزبوں کی تمازت سے تمتما رہے ہیں نئ آنکھیں گزشتہ دیکھے گۓ خوابوں سے جگمگا رہی ہیں نۓ قدم بیتی ہوئ گزرگاہوں پہ خراماں نۓ لفظ پرانی داستانوں پہ آویزاں نۓ سودے پرانے تھیلے نۓ سکے پرانی قدریں جنم نیا جائ پرانی چکور نۓ کھائ پرانی تکرار در تکرار در تکرار۔۔۔
ٹوٹے تنبو کون دیکھتا ہے اکھڑی طنابیں کون سمیٹتا ہے الٹے خیمے کون اٹھاۓ کون ریت سے جی بہلاۓ گیلی لکڑیاں چند ان بجھے کوئلے ٹوئیوں میں کہیں رکا ہوا پانی روڑی پہ کہیں ٹوٹی ہوئ گاگر پگڈنڈی پہ خم کھاۓ پہیے کا نشاں ریت میں دھنسی پیتل کی گانی۔۔۔
دل پکھی واسوں کو کون بلاۓ جو لڈ سدھانڑیں چلے گۓ۔۔۔
مسمار در مسمار در مسمار!!

آسی غازی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button