لکھ یار

خزاں ………………………عظمیٰ جبیں

 

خزاں جب بالوں میں چاندی اترنے لگے،چلنے سے سانس پھول جائے، ہاتھوں پر لہو ریز دریاوں لگیں اور آنکھوں سے، بہت دور، بدیس بسنے والے جگر گوشوں کی کے جال ابھرنے جدائی پچھلے پہر کی بارش کی طرح برسنے لگے تو سمجھ لو خزاں نے اپنے پر پھیلا لیے ہیں-کوچ کا نقارہ کسی بھی لمحے بجا چاہتا ہے———– کیا صرف اسی لیے پت جھڑ اکثرپسندیدہ نہیں ٹھہرتا؟ ———– کہ اس کے آنے سے بہار روٹھ جاتی ہے —— ہریالی کہیں سو جاتی ہے —–روئیدگی دم سادھ لیتی ہے——ویرانی اور تنہائی ڈیرے ڈال لیتی ہے——ڈالیوں کے سبز لبادے چیتھڑوں کی صورت یہاں وہاں اڑتے پھرتے ہیں ، چہچہے اورکلکاریاں خاموشیوں کے دیس سدھار جاتے ہیں اور اپنے پیچھے پچھتاووں کے گدلے رنگ اور سناٹے چھوڑ جا تےہیں—————پر کوئی ایسے کیوں نہ سوچے، کہ دن بھر کی مشقت کے بعد آرام کرنے کو شام آ رہی ہے ——— بیج بوتے سینچتے اب فصل کٹ کر سنبھل چکی ہے——— شور کی سرحدوں پر سکون کی وادی آٹھری ہے———– اک نئے عہد کے آغاز کا وقت آن پہنچا ہے جس میں گرمجوش سرخ ، بھورے اور پیلے رنگوں کا راج ہے—-سدا پنہاں رہنے والی ڈالیوں نے خود نمِائی کی ٹھان لی ہے——-پرانی قبا ئیں بدل کر نئی سے خود کو آراستہ کرنے کا سمے آ گیا ہے——————- اور تنہائیوں کے آئنے سامنے رکھے اپنے آپ سے باتیں کرنے کی فرصت ہی فرصت ہے فراواں فرصت ———— تو چلو نا! ہاتھ میں کوئی چھڑی تھامے خود سے باتیں کرنے لمبی سیر کو چلیں—— پیروں تلے چر مراتے پتوں کے نوحے بھی سنیں اور ان کے سرپھرے اور سیلانی پن پر شعر بھی کہیں ، ہواوں سے معانقے بھی کریں اور سائیں سائیں کرتے جھونکوں سے مصافحے بھی —– کہ یہ موقعے بھی تو قسمت سے ملتے ہیں— بہت غنیمت ہے جو اگر ملتے ہیں تو———- زنگی کی تصویر بہت سے رنگوں سے مل کر بنتی ، سجتی اور نکھرتی ہے ———————– بلا شبہ! ! )

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button