Samay Ka Bandhan

دیوی۔۔ سمے کا بندھن

دیوی
اونہوں! رانگ نمبر بہت آزما دیکھے۔ بے کار۔ سب ایک ہی بولی بولتے ہیں۔ آئی لوو یو ڈارلنگ۔۔۔ ہنہہ۔ نہ دیکھا نہ جانا اور آئی لوو یو ڈارلنگ۔ بھلا کوئی بات ہوئی۔۔۔ سب کو محبت کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ میں تو اکتا گئی۔ بور
آج صبح ایک رانگ نمبر کہہ رہا تھا کہ “فالنگ ان لوو ود یو۔۔۔ وہاٹ ام آئی ٹو ڈو؟ آئی کانٹ بلپ اٹ۔” بے چارا بلپ لس۔ سبھی بلپ لس ہو جاتے ہیں لڑکی کی آواز سن کر۔ اور پھر ملنے کا تقاضا۔۔۔ کہ ملو ملو ملو پلیز۔ ڈارلنگ یُو مسٹ۔
پرسوں ایک اولڈش بول رہا تھا۔ میں نے سوچا کوئی ہٹ کر بات کرے گا۔۔۔ اونہوں!۔ وہی ایک رٹ، یوں جیسے ریکارڈ پر سوئی اٹک گئی ہو۔
سوچتی ہوں یہ لوو کیا چیز ہے۔ ہر جگہ اس کا ہی ذکر ہے۔ قصوں میں، کہانیوں میں، شعروں میں، گیتوں میں اور رانگ نمبر کا لوو جو ہے وہ تو خالی گُڈ ٹائم ہے۔ ہلا گُلا۔ ممی تو مجھے گڑیا سمجھتی ہیں۔ کہتی ہیں۔ ڈالی، ابھی تم ان باتوں کو نہیں سمجھتی ہو۔ کیوں نہیں سمجھتی بھلا؟ چودھویں سال میں ہوں۔ اور پھر جس ماحول میں رہتی ہوں اس کا تو کام ہی یہی ہے۔ سمجھانا۔ معلومات بہم پہنچانا۔ اشاروں کنایوں سے نہیں کھل کر بات کرنا۔ بھرے منہ سے کہہ دینا۔ لاگ لپٹ نہیں۔ ہیرا پھیری نہیں۔ رکھ رکھاؤ نہیں۔ سپاٹ بات کہہ دینا۔ یوں جیسے غصے میں گالی بک دو۔۔۔
اشتہار میں، اخبار میں، فلمی گیت میں، چیپ ناول میں، ڈائجسٹ میں، ایک طوفان آیا ہوا ہے ماس میڈیا کا۔ سمجھانے کا۔ انفرمیشن بہم پہنچانے کا۔ ابھی پرسوں کی بات ہے، خالو کہہ رہے تھے کہ آج کا چھ سال کا بچہ جتنا کچھ جانتا ہے،
ڈریس، ڈیپورٹمنٹ سے بے نیاز ہیں۔ ڈیڈی کو اس بات کی کیا پرواہ۔ انہیں باتیں جو کرنی آتی ہیں۔ مائی گاڈ! کیا باتیں کرتے ہیں۔ سننے والا مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے۔ کیسی کیسی بات ذہن سے نکالتے ہیں کہ مداری کا چُھو منتر شرما کر رہ جائے۔
ڈیڈی بہت پڑھے لکھے ہیں، لیکن کیا مجال کہ بات میں سے کتاب کی بُو آئے یا فلسفے کا پتھر نکلے۔ بالکل نہیں۔ ہلکی پھلکی شگفتہ باتیں۔ سادہ بنی سجی نہیں۔ لفظ نہیں۔ باتیں، بات سے بات نکلتی ہے۔ اور پھر بات ایسے کہ جیسے پھلجڑی چل گئی ہو۔ پھر یہ بھی کہ چھوٹے چھوٹے عام سے لفظوں میں بڑی بات کہہ دیتے ہیں اتنی بڑی کہ غوطے لگاتے رہو۔ ویسے نہ لگاؤ تو بے شک اوپر ہی اوپر تیرتے رہو۔
میں جانوں بات میں بڑی کشش ہوتی ہے۔ خدو خال کی بناوٹ سجاوٹ سے کہیں زیادہ۔ نتیجہ یہ کہ ڈیڈی کے گرد جمگھٹا لگا رہتا ہے۔ یونیورسٹی میں بھی۔ گھر پر بھی۔ نوجوان کھچے چلے آتے ہیں۔ لڑکے کم کم، لڑکیاں زیادہ۔ لڑکوں میں ذہنی لگاؤ ہوتا ہے۔ لڑکیوں میں جذباتی۔ ڈیڈی راجا اِندر بنے بیٹھے رہتے ہیں۔ ممی کہتی ہیں: ان کے افیئرز چلتے ہیں۔ پتا نہیں۔ شاید چلتے ہوں۔ لیکن جسے اتنی واہ واہ ملے، سننے والے مبہوت ہو کر رہ جائیں، وہ پھر افیئرز سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ بحرحال، یہ تو ہے کہ لڑکیاں ڈیڈی پر مرتی ہیں۔ محبت کے بھبھاکے ضرور اُٹھتے ہیں۔ منظر بھیگا بھیگا ہوتا ہے۔ اوس چاہے پڑے نہ پڑے اور پڑ بھی جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ ڈیڈی بھی تو بڑے امینسی پیٹڈ ہیں۔
یہ امینسی پیٹڈ محبت مجھے ذرا اچھی نہیں لگتی۔ یوں دکھتی ہے جیسے گائے بھینسوں جیسی ہو۔ یہ محبت تو کی جاتی ہے، ہوتی نہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ مجھے محبت ہو جائے۔ کروں نہیں، ہو جائے۔ ایسی ہو جائے کہ جی چاہے اس بندھن سے چھوٹ جاؤں۔ لیکن چُھٹنا محال ہو جائے۔ جان عذاب میں پڑ جائے۔ پتا نہیں میرا جی ایسا کیوں چاہتا ہے؟
میرے گھر والے، ممی ڈیڈی، میرا سارا ماحول، سکول، سہیلیاں، کزن، سب مجھے ترغیب دیتے رہتے ہیں کہ محبت کر۔ کرنے والی محبت کر۔ اور جی۔
ساری مغربی تہذیب عورتوں کو اسی بات پر مائل کرتی رہتی ہے کہ اٹھ محبت کر، اور
پرانے زمانے میں اتنا کچھ پچیس سال کا جوان بھی نہیں جانتا تھا۔
پھر بھی ممی مجھے ڈال سمجھتی ہے۔ ڈالی کہہ کر بلاتی ہے۔ مجھے کبھی اثنا کہہ کر نہیں بلایا۔ وہ سمجھتی ہے کہ میں کچھ نہیں سمجھتی۔ سمجھتی تو میں سب کچھ ہوں۔ بس یہ سمجھ نہیں آتی کہ لوو کیا چیز ہے۔
ویسے لوو سے تو ہمارا اپنا گھر بھرا ہوا ہے یوں پچ پچ کرتا ہے جیسے گلا ہوا آم ہو۔ ممی اور ڈیڈی اگرچہ اکٹھے رہتے ہیں مگر اکٹھے نہیں رہتے۔ بڑے امینسی پیٹڈڈ ہیں وہ۔ آپس میں انڈرسٹینڈنگ پیدا کر رکھی ہے۔ ڈارلنگ تم اپنے راستے پر چلو، میں اپنے راستے پر۔ دونوں اپنے اپنے راستے پر چل رہے ہیں۔ کبھی کبھار ملاپ ہو جاتا ہے۔ شاید ہو جاتا ہو۔ ہم تو صرف ہیلو ہیلو سنتے ہیں۔
ممی کی مشکل یہ ہے اسے علم نہیں ہے کہ وہ پینتالیس کی ہو چکی ہے۔ پتا نہیں خود کو بیس کی سمجھتی ہے یا بائیس کی۔ ویسے تو اکثر آئینہ دیکھتی رہتی ہے۔ پر آئینے میں کبھی خود کو نہیں دیکھا۔ ورنہ بہت سی مشکلات حل ہو جائیں۔ آئینے میں ہر کوئی وہ دیکھتا ہے جو دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ نہیں جو سامنے ہوتا ہے۔
بس ممی خود کو بنانے سنوارنے میں لگی رہتی ہے۔ میک اپ ہو رہا ہے۔ بال کٹوائے جا رہے ہیں۔ گھنگھر بنائے جا رہے ہیں سلمنگ کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ شام کو یوگا، صبح کو ورزشی سائیکل اور پھر دن بھر ڈائٹنگ۔ پیٹ بھر کر نہ کھاؤ۔ گھنٹے گھنٹے بعد کوئی سنیک، کوئی فروٹ، کوئی سلائس، میٹھا؟ اونہوں! گھی؟ بالکل نہیں۔ اناج؟ کم کم۔ بیچاری ممی۔۔۔ بھوکی مر رہی ہے۔ پھر بھی پنڈا تھل تھل کرتا ہے۔۔۔ ہئے! ود اِن کوئسچن رہنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔
پھر بھی ممی کامیاب ہے۔۔۔ ایک نہ ایک فرینڈ ساتھ لیے پھرتی ہے۔ پہلے ڈیوڈ تھا، پھر افضل، اب توقیر ہے۔ ڈیڈی تو اس معاملے میں پاسٹ ماسٹر ہیں۔ ہر وقت اردگرد کالج والیوں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے۔
ڈیڈی بنتے سنورتے نہیں۔ اپنی ایج کیمو فلاج نہیں کرتے۔ بناوٹ، سجاؤٹ،
جی۔ یہی زندگی ہے۔ یہی خوشی ہے۔ یہی سب کچھ ہے۔ اہل مغرب سبھی اسی چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ کرنے والی محبت میں لت پت ہو رہے ہیں۔ محبوبوں کے کیو لگے ہوئے ہیں۔ کسی کا دسواں محبوب ہے، کسی کا پندھرواں۔ محبوب یوں بدلتے ہیں جیسے جرابیں ہوں۔ پرانی ہو گئیں تو پھینک کر نئی لے آئے۔ کہتے ہیں یہ آزادی ہے۔ آزادی تو ہے، پر محبت نہیں۔ محبت تو خود ایک بندھن ہے۔ ایسا بندھن جس سے آزاد ہونے کو جی نہیں چاہتا۔ اور جی چاہے بھی تو آزاد ہونا ممکن نہیں ہوتا۔
دیکھ لو، کرنے والی محبت اور آزادی نے مغرب کو کیا کر دیا ہے۔ نہ محبت کی توقیر رہی، نہ عورت کی، نہ رشتوں کی۔ بندھن ٹوٹ گئے ہیں۔ زندگی سے دل اُچاٹ ہو گئے ہیں۔ آوارہ گھومو۔ نشہ کرو۔ خوش وقتی۔ تفریح۔
تفریح تو وقتی چیز ہے۔ جو لوگ تفریح کے پیچھے دوڑتے ہیں وہ خود وقتی بن جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہ تفریح میں ادل بدل کے بغیر بات نہیں بنتی۔ تفریح کی سڑک پر چہل قدمی کرو تو پھر بور ہو کر۔ سڑک چھوڑ کر پگڈنڈیوں پر چڑھنا لازمی ہو جاتا ہے۔ کرنے والی محبت ایسی ہی ایک تفریح ہے۔
ہئے! ہو جانے والی محبت کی کیا بات ہے۔ ادھر نکڑ پر جو پھلوں کی ریڑھی لگاتا ہے نا۔ کیا نام ہے اسکا، حمیدا۔ ہوگا کوئی تیس پینتیس کا۔ جب گیارہ بجتے ہیں تو وہ اپنی ریڑھی چھوڑ کر ہمارے گھر کے دروازے کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ چاہے کڑکتی دھوپ ہو یا بارش ہو رہی ہو۔ دروازے پر کھڑا رہتا ہے۔ کھڑا رہتا ہے۔ اس وقت اسے نہ گاہک کی پرواہ ہوتی ہے، نہ بِکری کی۔ ہمارے گیٹ کے مقابل جو گلی ہے اسے دیکھتا رہتا ہے۔ دیکھتا رہتا ہے۔ پھر وہ خاتون گلی سے باہر نکلتی ہے۔ بس بت بنا اسے دیکھتا رہتا ہے۔ اسے بلاتا نہیں۔ گھنگھورا نہیں مارتا۔ کہ ادھر دیکھ، میں تیری راہوں میں کھڑا ہوں۔ نہ نہ۔ بالکل نہیں۔ اس کا پیچھا نہیں کرتا۔ بس چپ چاپ اداس نظروں سے اسے دیکھتا رہتا ہے۔
وہ اللہ کی بندی بھی چپ چاپ سمٹی سمٹائی گزر جاتی ہے۔ نگاہ اوپر نہیں اٹھاتی۔ اس کی چال میں ٹھمک پیدا نہیں ہوتی۔ شاید اسے احساس نہیں ہوتا کہ کوئی روز بلا ناغہ اسے دیکھنے
کے لیے راہ میں کھڑا رہتا ہے۔ لیکن نہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی اسے محبت بھری نظروں سے دیکھے اور عورت کو پتہ ہی نہ چلے۔ ضرور اسے پتا ہو گا۔ پھر بھی وہ لپٹی لپٹائی یوں گزر جاتی ہے جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ ہوتا ہو گا ضرور ہوتا ہو گا۔ اس کے دل کی گہرائیوں میں پتا نہیں کیا کیا ہوتا ہو گا۔ میں جانوں، محبت بھری ہوتی ہے پر چھلکتی نہیں۔ وہ تو کرنے والی محبت ہوتی ہے جو چھلکتی ہے۔ بھری نہیں خالی چھلکتی ہے۔ صرف چھلکن ہی چھلکن۔ پھر وہ غلام علی کی بات۔
ہئے! کیا بات تھی غلام علی کی بات کی۔ سن کر میں دو دن سُن ہی رہی تھی۔ غلام علی کی بات چچا شیر محمد نے سنائی تھی۔ جب ورلڈ وار ختم ہوئی تھی تب کی بات ہے۔ ان دنوں ہندوستانی رجمنٹ کا ایک یونٹ فرانس کے ایک گاؤں کے قریب مقیم تھا۔ اس یونٹ کے سبھی جوان جہلمی تھے۔ ان میں غلام علی بھی تھا۔ اونچا لمبا شیں جوان۔
غلام علی کو گاؤں کی ایک فرانسیسی دوشیزہ سے محبت ہو گئی۔ پھر غلام علی کا معمول بن گیا کہ اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر شام کے وقت اس لڑکی کے مکان کے سامنے جا کھڑا ہوتا۔ کھڑا رہتا، کھڑا رہتا۔ چاہے بوندا باندی ہو رہی ہوتی یا موسلا دھار بارش پڑ رہی ہوتی۔ وہ وہاں کھڑا رہتا۔ طوفان آتے، برفباری ہوتی لیکن غلام علی وہاں کھڑا رہتا۔
غلام علی تب تک وہاں کھڑا رہتا جب تک اتفاق سے دوشیزہ کھڑکی میں نا آ کھڑی ہوتی۔ اسے دیکھ کر غلام علی اٹنشن ہو کر سلوٹ مارتا۔ جب تک وہ سامنے کھڑی رہتی، سلوٹ کیے رہتا۔ چلی جاتی تو وہ اپنے یونٹ کی طرف چل پڑتا۔
گاؤں والے غلام علی کو وہاں کھڑا دیکھ کر حیران ہوتے کہ یہ جوان یہاں کیوں کھڑا رہتا ہے گاؤں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ پھر جب انہیں پتہ چلا کہ اسے فرانس کی بیٹی ماریانا سے محبت ہے تو وہ اور بھی حیران ہوئے۔ یہ کیسی محبت ہے کہ مکان کے سامنے کھڑا رہے کہ محبوبہ سامنے آئے تو سلوٹ ماریں! جو محبت ہے تو محبوبہ کا دروازہ کھٹکھٹاؤ۔ اندر جاؤ۔ اس کا ہاتھ چومو۔ پاس بیٹھو۔ فرانس والوں کو بھلا کیا پتا تھا کہ ہو جانے والی محبت کیا ہوتی ہے وہ تو کرنے والی محبت کو جانتے تھے۔
ہونٹوں نے ایسی چٹکی سی بھر رکھی ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے ابھی ابھی کوئی لطیفہ سنا ہو۔ اس کے ہاتھ ذرا بھی آرٹسٹک نہیں تھے۔ موٹے بھدے۔ پتا نہیں کیوں وہ مجھے بہت ہی اچھے لگتے ہیں۔ جب وہ کٹائی کا کام کر رہا ہوتا ہے تو میں چوری چوری اس کے ہاتھوں کی طرف دیکھتی رہتی ہوں۔
بہانے بہانے اسے میں اپنے کمرے میں بلا لیا کرتی ہوں۔ اسی لیے تو میں نے اپنے کمرے میں تین گملے سجا رکھے ہیں۔ ایک پام کا، ایک کیکٹس کا ، ایک مشروم کا۔ جب وہ اندر آتا ہے تو سارا کمرہ اس کی خوشبو سے بھر جاتا ہے۔
جب میں اس سے بات کرتی ہوں تو وہ نظریں جھکائے رہتا ہے۔ جب میں کسی اور طرف دیکھتی ہوں تو وہ مجھے دیکھتا ہے۔ دیکھتا رہتا ہے۔ میں جان بوجھ کر، جھوٹ موٹ، دوسری طرف دیکھتی رہتی ہوں۔
مائی گاڈ! جب وہ مجھے دیکھتا ہے تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے غلام علی سلوٹ مارے کھڑا ہو۔
اس وقت میرے دل میں کچھ کچھ ہوتا ہے۔ وہ کچھ کچھ طوفان بن کر میرے انگ انگ میں رچ جاتا ہے۔ ایک مان انگڑائی لیتا ہے، ایک تفاخر۔۔۔ ایک پھلجھڑی سی چل جاتی ہے۔ اور، اور مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اس کی نگاہوں نے مجھے دیوی بنا دیا ہو۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button