لکھ یار

راجہ گدھ پر تبصرہ….. غلامِ مصطفیٰ

#ادبی تبصرہ : راجہ گدھ

راجہ گدھ سوشیالوجی کے موضوع پر لکھی گئی بانو قدسیہ کی شہرہ آفاق کتاب ہے جس میں بانو قدسیہ نے معاشرے کی اونچ نیچ اور علم سوشیالوجی کے اصولوں کی روشنی میں ہماری سوسائیٹی کا عکس دکھانے کے لیے اپنی کہانی میں سوشیالوجی کے پروفیسر اور شاگردوں کو کہانی کا مرکزی کردار بنایا ہے۔ آپ نے معاشرے کے تقریبا ہر پہلو پر بات کی ہے لیکن مرکزی طور پر ساری کہانی دو موضوعات کو لے کر آخر تک چلتی ہے۔

ایک “انسان کی دیوانگی کی وجہ” اور دوسرا “محبت کا ہمارے معاشرے میں کردار”۔

اس کے علاوہ آپ نے بہت سے نظرئیے اور فلسفے کہانی کے کرداروں کے زریعے ہم تک پہنچاے ہیں اور خوب صورت بات یہ کہ اتنے زیادہ مختلف پہلووں کو اتنی خوب صورتی سے کہانی کے مضمون میں پرویا ہے کہ پڑھنے والاایک لمحے کے لیے بھی کہانی کی گہرای اور لطف سے باہر نہیں آتا۔ یہ آپ کی معاشرےپر گہری نظر اور ادبی کمال کی شاہکار مثال ہے۔

آپ کے نزدیک محبت اس معاشرے اور انسانی زندگی کا ایک لازمی جز بن چکا ہے۔ اور محبت کے غلط تصور نے ہمارے معاشرے کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ” جس معاشرے کی تشکیل محبت کے تصور کے بغیر ممکن نہ تھی رفتہ رفتہ محبت ہی سوسائیٹی کا ایک بڑا روگ بن گئی، اس جن کو بوتل میں بند رکھنا معاشرے کے لیے ممکن نہ رہا۔ اب محبت کے وجود یا عدم وجود پر ادب پیدا ہونے لگا ہے، بچوں کی سائکالوجی جنم لینے لگی، محبت کے اصول پر مقدمے ہونے لگے، ساس بن کر ماں ڈائین کا روپ دھارنے لگی۔ معاشرے میں محبت کے خمیر کی وجہ سے کئی قسم کا ناگوار بیکٹیریا پیدا ہوا”۔

بانو قدسیہ کا ماننا ہے کہ ہمارے معاشرے کا فرد محبت کی اصل سے واقف ہی نہیں، وہ جانتا ہی نہیں کہ اسے کیا چاہیے، کیسی محبت چاہیے۔”تمہیں محبت نہیں چاہیے سیمی تمہیں آفتاب چاہیے، سب کا یہی حال ہے، سب کو محبت چاہیے لیکن صرف اس شخص کی جسے اس کا دل شدت سے چاہتا ہے، باقی سب محبتیں کیلے کاچھلکاہیں، ایویں ہیں”۔ پھر آپ اصل محبت کا اپنا نظریہ بتاتی ہیں کہ “روح کو محبت اس وقت ہوتی ہے جب دو انسانوں کی سائیکی ایک دوسرے کی تلاش میں نکلتی ہے”۔ یہی اصل محبت ہے۔ شادی سے محبت کا تعلق ہے اور نہ محبت سے شادی کا، ساختہ کو بے ساختہ سے کیا میل۔ آپ ایک دلچسپ فقرے میں ہمارے معاشرے کی محبت کا ڈراپ سین واضح کرتی ہیں “نکاح نامے میں کبھی دیکھا ہے محبت کا خانہ؟”

کہانی مزید بیان کرتی ہے کہ ظاہری محبت کا متلاشی یہ بھی بھول جاتا ہے ایک آدمی آپ کی تمام ضروریات پوری کر دے یہ ناممکن ہے، اور بالفرض اگر کوی شخص آپ کی ہر سمت کی جہت کو پوراکر بھی دے تو کیا گارنٹی ہے کہ آپ بھی اس کی ہر ضرورت کو ہر جگہ ہر موسم میں ہر عہد میں پوراکر سکیں گے”۔ وہ زندگی کے فیصلے کرنے میں ایسا ضدی ہو جاتا ہے کہ اپنی سوچ کو پرفیکٹ اور اپنی خوشی کا واحد حل سمجھنے لگ جاتا ہے۔ حالانکہ بانو قدسیہ کا ماننا ہے کہ “زندگی سے موت تک کئی راستے ہیں جس راستے پر بھی چلو اس کی اپنی راحتیں ہیں اور اپنی مشکلات۔ انسان یہی سوچتا رہتا ہے کہ شاید دوسرا راستہ بہتر تھا۔ لیکن ہر راستے کے اختمام پر پہنچ کر اگر حساب کیا جاے تو ہر راستے کا مجموعی راحتوں اور مشکلات کا کل میزان برابر ہی نکلے گا”۔

اور پھر اس معاشرے کا فرد ان سمجھی محبت میں ہارنے کے بعد اپنے حواس کھو دیتا ہے۔ محبت میں ناکامی کے بعد لوگ اپنی ہی ذات کی نفی اور تزلیل میں لگ جاتے ہیں، وہ ہر کس ناکس کے ہو کر کسی کے نہیں رہتے، اپنے جسم کی تزلیل میں انہیں لذت محسوس ہونے لگتی ہے۔ حالانکہ “دل کی طرف صرف ایک راہ جاتی ہے اور جسم کا راستہ نہیں ہے، جسم کے جنکشن پر انجن رک سکتا ہے لیکن کھڑا نہیں رہ سکتا، جسموں کے ملاپ سے ایک نیا جسم ایک نئی روح جنم تو لے سکتی ہے لیکن ایک روح دوسری روح سے مل نہیں سکتی۔”

آپ نے محبت کی کہانی کی آڑ میں سوشیالوجی اور نفسیات کے بہت سے نظریعے بھی دئیے ہیں جیسے یہ بتایا کہ زندگی کے اہم واقعات قد میں چھوتے ہوتے ہیں انسان ان کو رو کر غم غلط کر کے ہلکا ہو جاتاہے لیکن چھوٹے واقعات جن کو ہم جی بھر کر سوچتے نہیں وہ ہماری نفسیات میں رہ جاتے ہیں۔ اور ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ پھر یہ بتایا کہ مغرب کے پاس حلال حرام کا تصور نہیں ہے، وہ ابھی یہاں تک پہنچے نہیں ہیں لیکن ایک دن پہنچ جائیں گے۔ جب رزق حرام جسم میں داخل ہوتا ہے تو وہ جینز کو متاثر کرتا ہے ان میں ایک خاص قسم کی mentationہوتی ہے جو بہت زیادہ مہلک ہے۔ جن قوموں میں من حیث القوم رزق حرام کھانے کی لت پڑ جاتی ہے وہ من حیث القوم دیوانی ہونے لگتی ہیں۔ یقین کر لو رزق حرام کی وجہ سے ہماری آنے والی نسلوں کو پاگل پن وراثت میں ملا ہے۔ ایک نظریہ یہ بھی ہمارے شعوری سوچ کے لیے رکھا ہے کہ گناہ اور ثواب انسان کا پیچھا کرتے ہیں، ظلم بے حسی اور گناہ یہ سب زندگی کے کسی موڑ پر مقافات عمل کے طور پر سامنے آتے ہیں، جیسے مردہ تعلقات جینے والے قیوم کے نصیب میں باقرہ لڑکی نہیں تھی اور سیمی کو زندگی بھر کا درد دینے والے آفتاب کے نصیب میں معزور اولاد کا مقافات عمل نظر آیا۔

آپ نے معاشرے کے بہت سے پہلووں کو بہت خوب صورتی سے کہانی میں بیان کر دیا۔ شہری اور دیہاتی زندگی کا دلکش موازنہ بھی پیش کیا، ضرورت سے زیادہ Ambious والدین کے بچوں کی حالت سیمی کی شکل میں دکھای، طرز تعلیم پر زیر حاصل بحث ماسٹر غفور اور پروفیسر سہیل کے رویوں میں کی۔انسانی عادات کو لا شعور کی ادھوری خواہشات اور مشکلات سے ملایا “امتل کے آنے کے بعد میری تھوک پھینکنے کی عادت کم ہو گئی تھی”۔۔ رشتوں کی نفسیات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ شادی سے پہلے تو محبت سر چڑھ کر بولتی ہے لیکن شادی کے کچھ عرصے بعد دونوں کی محبت کہیں کھو جاتی ہے شاید اس وجہ سے کہ “جب محبت مل رہی ہوتی ہے تو اس وقت انسان نے یہ سوچا ہی نہیں ہوتا کہ محبت دینی بھی پڑے گی”۔ پریکٹیکل لائف جوانی کی محبت سے یکثر مختلف ہوتی ہے جس کے لیے انسان تیار نہیں ہوتا اور جب اچانک سر پر پڑتی ہے تو پیر تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ مزید کہتی ہیں کہ “کچھ لوگوں کو محبت پائیدار کرنے کا بہت شوق ہوتا ہے خاص کر لڑکیوں کو۔ ایسے لوگوں کو وہم ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ جوان رہیں گے، ہمیشہ محبت کر سکیں گے۔ لیکن ہمیشی کی محبت بہت مشکل کام ہے، کوی کوی کر سکتا ہے، ہم آجکل کی جینیریشن تو بالکل نہیں”۔آپ نے طوائف کی زندگی اور اورperspective بھی دکھایا ہے، ضرورت کے گناہ کی طرف لیجانے کا نظریہ دیا ہے، ان کے بھی جذبات ہوتے ہیں، عزت نفس ہوتی ہے۔۔ “جن کے پاس عزت نہیں ہوتی وہ ساری زندگی اسے ہی بنانے میں لگے رہتے ہیں۔

راجہ گدھ کہانی کا دوسرا اہم موضوع انسان کا کردار ہے۔ بانو قدسیہ نے گدھ کو انسان کی دیوانگی سے تشبیہ دے کر زبردست گفتگو کی ہے کہ انسان بھی اکثر گدھ کی طرح “مردہ تعلقات” کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔ بانو قدسیہ کی یہ اصطلاح صرف جسمانی تعلق کی غمازی نہیں ہے بلکہ نفسیاتی و جزباتی تعلقات میں بھی ہمارے معاشرے کا انسان مردہ تعلقات اپنانے کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔ اور یہ کہ گدھ کی طرح جب ایک دفعہ مردار اور مردہ تعلق کی ہوا ایک دفعہ لگ جاے تو پھر وہ ساری زندگی مردار ہی کھاتا رہتا ہے جو اسے دیوانہ بنا دیتی ہے۔

بانو قدسیہ نے کہانی کے مختلف درجوں اور زاویوں میں یہ بتایا ہے کہ انسان کی دیوانگی کی تین وجوہات ہیں۔ ایک جگہ وہ عشق لاحاصل کو دیوانگی کی وجہ گردانتی ہیں، جبکہ ایک موقع موت سے خوف کو دیوانگی کا زمہ دار ٹھراتی ہیں اور پھر وخر کار رزق حرام کو انسان کی دیوانگی کا موجب قرار دیتی ہیں۔

کہانی اور کرداروں میں مکالمے کی شکل میں آپ نے ایک دلچسپ بحث چھیڑی ہے کہ آدم علیہ السلام نے جنت میں (اللہ کے حکم سے) رزق حرام (ممنوع چیز) کھایا جس کی وجہ سے بنی آدم میں دیوانگی پیدا ہوی، قابیل کے قتل سے لے موجودہ معاشرے کی ہر برای کا موجب وہ ہے۔ یا پھر عشق لاحصل اور موت سے ناواقفیت کی وجہ سے جو دیوانگی پیدا ہوتی ہے اس کی وجہ سے انسان نے رزق حرام میں قدم رکھا۔ گدھ کی زبان سے انسان کی حالت بیان کی کہ “میں خود نہیں جانتا کہ مجھ میں دیوانگی پہلے پیدا ہوی یا میں نے رزق حرام کی طرف پہلے قدم بڑھایا۔۔

پھر آخر میں بانو قدسیہ ہمارے معاشرے کی ایک اور تلخ حقیقت کی طرف ہمیں لے کر جاتی ہیں کہ انسان بتای گئی وجوہات کی بنا پر دیوانہ ہونے کے بعد بقاکی تلاش میں صوفیاء اور درویشی کی راہ پر جانکلتاہے۔ لیکن انسان اپنی اس حالت میں اس کے قابل بھی نہیں رہتا۔ جس کے دل سے دنیا ہی نہ نکلی ہو وہ معرفت کے راستے کا اہل نہیں ہوتا۔ قیوم اور درویش کے مکالمے سے ہمیں سمجھایا کہ “فنا کے بغیر بقا کا آرزومند ہونا بے سود ہے”۔ اور یہ کہ “دیوانگی اور معرفت میں صرف حواس کا فرق ہے، حواس باقی رہیں تو معرفت ہے اور برقرار نہ رہیں تو انسان دیوانہ ہو جاتا ہے”

اسی وجہ سے قیوم اس راہ سے بھی محروم رہ جاتاہے۔ اور یہی ہمارے معاشرے کے ہر فرد کی کہانی ہے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button