Payaz k Chilkay

قدرت اللہ شہاب کی شخصیت – پیاز کے چھلکے

قدرت اللہ شہاب کی شخصیت اور ممتاز مفتی

قدرت کی شخصیت کے معتلق ایک ایک بات یقینی ہے۔قدرت اللّه کی شخصیت ممتاز مفتی کا المیہ ہے۔ قدرت اللّه سے میں 1958 میں معتارف ہوا۔ اس کی شخصیت کے صرف چند ایک پہلو تھے جو واضع تھے۔ بالکل نمایاں کوئی تضاد نہ تھا، کوئی الجھاو نہ تھا۔ صندوق میں (تابوت کیا ہوتا )وہاں کوئی صندوق ہی نہ تھا۔ کوئی چیز مقفل نہ تھی۔ ہر چیز باہر پڑئی تھی۔ چیزوں کے ڈھیر لگے تھے۔ جیسے اناج منڈی میں اناج کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں۔ اس منڈی میں چار ایک ڈھیر تھے۔ انکساری، رواداری، سادگی اور مٹھاس۔ ذہانت تو تھی لیکن اس میں شو مارنے والی چمک نہ تھی۔ جیسے پتیل دیگچی پر التزاماً مٹی کا کوٹ کر رکھا ہو۔ 1959 تک میں میں قدرت اللّه کی شخصیت کو کماحقی ہو سمجھتا تھا۔

1960 میں مجھے شک پڑنے لگا کہ قدرت اللّه کی شخصیت کا کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جس سے میں واقف نہیں۔ اس شک کے محرکات کے تھے تو خارجی لیکن بہت مبہم تھے۔ان بے نام محرکات نے بے نام محسوسات کو جنم دیا۔ یہ محسوسات کو جتنے بے نام تھے اتنے ہی شدید تھے۔اتنے ہی پر اثر تھے۔

1961 میں دفعتاً میں نے شدت سے محسوس کیا کہ میں قدرت اللّه کی شخصیت کے کچھ حصے سے واقف ہوں۔ ظاہری حصے سے اور اس کی شخصیت کا نیوکلس ایک ایسی سمت میں واقع ہے جو میری داسترس سے باہر ہےاندازہ لگائیے نفسیات کا ایک طالبِ علم جو زعم رکھتا ہو اس کیلےّ یہ احساس کس قدر تکلیف دہ ہو گا کہ وہ سمجھنے سے نہ سمجھنے کی سمت بہے جا رہا ہے۔

ساری بات ہی عجیب تھی۔ تجزیہ شخصیت کے مسلمہ اصولوں سے ہٹ کر تھی۔ قدرت اللّه کی شخصیت میں دو رُخی نہ تھی۔ تفریق و تقسیم نہ تھی ۔اس کی مخفی اور آشکارا شخصیتوں میں تضاد نہ تھا۔ اس کی ظاہری شخصیت میں کوئی الجھاو نہ تھا۔

پھر قدرت اللّه کی شخصیت کا اسرار کیا تھا جبکہ تجزیہ شخصیت کے مسلمہ اصولوں کے مطابق اسرار کا کوئی جواز نہ تھا۔ مخفی شخصیت کے وجود کا جواز نہ تھا۔ پھر وہ مخفی شخصیت کیا تھی۔کیوں تھی۔

عام طور سے ظاہری شخصیت مخفی شخصیت کو چھپانے کا سرپوش ہوتی ہے اور نفس غیر شاعر کے ذریعے اس کی جھلکیاں نشر ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن قدرت اللّه کے نفس شاعر اورغیر شاعر میں ایک ان جانا، ان ہونا ربط تھاجیسے دونوں کو الگ الگ کرنے والی دیوار منہدم ہو چکی ہو اور اندھیرے سے اُجالے مل کر سحر کا سماں پیدا ہو گیا ہو۔ ہاں ساری بات ہی عجیب تھی۔ ساری بات ہی ان ہونی تھی۔ جو ممتاز مفتی کیلے ہونی بن گئی۔

بدقسمتی سے کچھ عرصہ کیلے میں ایک ایسے ادارے سے منسلک رہا ہوں جہاں ہمارا کام تجزیہ شخصیت کی تحقیق تھا۔ اس ادارے میں تجزیہ شخصیت کے محققین کے خیالات مفروضات اور تسلیم شدہ اصولوں کو جاننے کے علاوہ مجھے براہ راست بیسیوں شخصیتوں کا تجزیہ کرنے کا موقع ملاتھا۔

قدرت اللّه کی شخصیت کے اس اسرار نے میرے زعم کو پارہ پارہ کردیا آپ کے سینے میں رچے بسے زعم کو ٹھیس لگے تو شخصیت کی ناوّ میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ قدرت اللّه کی شخصیت کو سمجھتے سمجھتے میری اپنی شخصیت ڈوب گئی۔ اب میری حیشیت ایک Bosewell کی ہے جو جانسن کو سمجھاتا نہیں اسے جانتا ہے ،مانتا ہے اور مناتا ہے۔وہ کون کون سے خارجی واقعات تھے جنہوں نے اس احساس کو جنم دیا کہ قدرت اللّه کی شخصیت کا نیوکلس ایک ایسی سمت میں وجود رکھتا ہے جس کا میں احاط نہیں کر سکتا۔ یہ ایک طویل داستان ہےجس کا تفصیلی ذکر اس مضمون میں ممکن نہیں۔ یہ تفصیلات علی پور کے ایلی کی دوسری جلد ایلی اور الکھ نگری کا موضوع ہیں۔ علی پور کے ایلی کا عظیم Experience شہزاد تھا۔الکھ نگری کے ایلی کا عظیم تر Experience قدرت اللّه ہے۔

قدرت اللّه کی شخصیت کے معتلق سب سے پہلی بات جو مجھے کھٹکی یہ تھی کہ قدرت اللّه ایک جانا اور مانا ہوا ادیب تھا۔ اس میں تخلیق کی صلاحتیں واضع  تھیں اس قدر شوخ اور واضع کی اس کے تخلیق کردہ ادب پارے چاند کے سامنے چراغ کی حیشیت رکھتے تھے۔ دونوں میں کوئی مناسبت نہ تھی۔ اس کے باوجود قدرت اللّه قعطی طور پر ادیب شخصیت کا حامل نہ تھا۔

تضاد اور شدت کی شخصیت کے دوپایہ ستون ہیں۔ یہ تضاد ایسے جیسے بچے کا جیب جس میں چاک چنے ،روشنائی رنگین بنٹے خالی گوٹ اور ٹوٹی ہوئی پھرکیاں ایک ساتھ پڑئی ہوتی ہیں۔ شدت ایسی جیسے چینٹیوں کا گھروندا جو اوپر سے ساکن ہے اندر حرکت کے چکر چلتےہیں۔

ادیب کی شخصیت فقیر خانے کے مصداق ہے ایسا فقیر خانہ جس میں معذور شہنشاہ بستے ہیں جس میں طرح طرح کی گدڑیاں ہیں رنگ رنگ کے پیوند میں اپنے دکھ کو بھلانے کیلے اور دوسروں کی توجہ اپنی طرف منعطف کرنے کیلے قسم قسم کے ہتکھنڈے عمل میں لائے جاتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ فقیر باہر لنگڑاتا ہے گھر میں دو پاوُں پر چلتا ہے۔ ادیب باہر دوپاوُں پر چلتا ہے، گھر آکر لنگڑاتا ہے۔

بنیادی طور پر ادیب کی شخصیت ایک مظلوم شخصیت ہے۔ شدت کو کوڑا چلتا ہے۔ مظلوم حبشی چیختا ہے قاری جھوم جاتا ہے۔ پھر عطا ہو کوڑے کے درد کو بھلانے کیلے ہر کسی نے اپنا اپنا طریق کار ایجاد کر رکھا ہے۔ یوں ادیب کی شخصیت پر انفرادیت کی چھاپ لگ جاتی ہےکوئی علاج بالمثل پر یقین رکھتے ہوئے ابوالدکھ حفیظ کی طرح دکھ کی دوکان سجا کر بیٹھ جاتا ہے کوئی ثناءاللّه کی طرح جٹا دھاری روپ دھار کر لوہوں کے گولوں کا تماشا دکھاتا ہے اور چلا چلا کر کہتا ہے ہم ثناءاللّه نہیں میرا جی ہیں،ثناءاللّه کون تھا ہم اسے نہیں جانتے ۔

کوئی اس عورت کی طرح جس نے محلے والوں کو اپنی انگوٹھی دکھانے کیلے گھر کو آگ لگا دی تھی۔ کالی شلوار لہرا کر کہتا ہے* یار میری طرف دیکھو، میں پرس برانچ کے ناظم کو یہ شلوار نہ پہنا دوں تو میرا نام منٹو نہیں* ۔

کوئی اشفاق احمد کی طرح تلقین شاہیاں ایجاد کر لیتا ہے کوئی سادھو منش نشا کی طرح سندھ باد جہازی کا بھیس بدل کر قہقے کی قبا اوڑھ لیتا ہے۔

قدرت اللّه میں نہ شدت تھی نہ تضاد ۔نہ اس میں چیونٹوں کے گھروندوں کے چکر چلتے تھے نہ مظلوم حبشی کراہتا تھا۔ اس نے کوئی گدڑی نہیں پہن رکھی تھی۔ اس کی شخصیت ایسا گھرانا نہ تھی جس میں ادیب بستا ہے۔ جیسے کوئی ملادو پیازہ قصر شاہی میں آٹھہرا ہو تفریحاً ادیبوں سے دل لگی کرنے کیلے ادب کی پھلجڑیاں چلا رہا ہو ۔یا جیسے کوئی بیربل کسی قلندر کے آستانے میں آرکا ہو ۔اگر وہ شخصیت ادیب کا گھر نہ تھی تو پھر کس کا گھرانہ تھا۔ وہ شاہ کون تھا۔ وہ فقیر کون تھا۔ وہاں کون رہتا تھا جو تخلیقی صلاحیتوں کے باوجود تخلیق کو اہمیت نہ دیتا تھا جو تصنیف سے ذاتی اہمیت اخذ کرنے سے سراسر منکر تھا۔

قدرت اللّه کی شخصیت سے معتلق دوسری بات جو چکرا دیتی ہے عمومی شخصیت کے روزمرہ پہلو سے متعلق ہے۔

عام دستور ہے کہ شریف آدمی گھر میں چائے خانے میں ،ریستوران میں،پارک میں، اڈے پر یا پلیٹ فارم پر کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی بہانے مل بیٹھتے ہیں اور پھر کسی نہ کسی کا تذکرہ چھڑ جاتا ہے۔ شر پسندی کی وجہ سے نہیں غیبت کے خیال سے نہیں ویسے ہی وقت کاٹنے کے لیے ۔بات کرنے کیلے مل بیٹھنے کا بہانہ ڈھونڈنے کیلے۔ اس اہل کار کی بات چھڑ جاتی ہے جو دام نہیں چام کی رشوت لیتا ہے۔ایسے مغز بڈھے کا ذکر شروع ہو جاتا ہے جس کے شانوں پر سکول کی ٹیڈی جزیرے بڈھے کی طرح سوار ہےایسی معصوم محفلوں سے کون واقف نہیں کون ہے جو ایسی رنگین گفتگو میں دلچسپی نہیں لیتا۔ اوّل تو ایسی بیٹھکوں میں، میں آپ ہم سب کو کچھ نہ کچھ کہنا ہوتا ہے اگر کوئی بھلا مانس ٹھنڈے خون کا مریض ہو اور گفتگو میں حصہ نہ لے سکے تو کم ازکم وہ غور سے بات کو سنے گا، مسکرائے گا اور پھر مزید غور سے سننے لگے گا۔ ایسی محفل میں ۔میں نے کسی کو جمائی لیتے نہیں دیکھا۔ قدرت اللّه کے۔

ارے قدرت اللّه کیا شے ہے ۔دانشور ہے،رنگین مزاج بھی ہے طبعیت بھی شریفانہ ہے۔ پھر شریفانہ بیٹھک میں بے زاری کیوں۔ صرف جمائیاں ہی نہیں لیتا۔ بلکہ اس قدر جسارت کے موضوع بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔

یار دوستوں کی بات چھوڑئیے ۔گھر کی بات لیجئے ۔گھر ایک مقدس جگہ ہے۔ مقدس اور اہم بھی۔ گھر میں فرصت کے وقت میاں بیوی دونوں مل بیٹھتے ہیں۔ پھر پڑوسیوں کی بات چل نکلتی ہے۔ اس جوان لڑکی کا تذکرہ چھڑ جاتا ہے جس پر بڑی منہ زور جوانی آئی ہے۔اس بڈھے پنشنر کا ذکر کیا جاتا جو جوں جوں بوڑھا ہوتا جاتا ہے توں توں نئے ولولے سے چوبارے کی کھڑکی میں کھڑا ہو کر مونچھ مروڑتا ہے اور گلیڈ آئی چمکاتا رہتا ہے۔ متصل رہنے والے جوڑے کی خست کی تفصیلات پر ہنسی کا دور چلتاہے۔ رشتہ داروں کی چھوٹی چھوٹی کمینگیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے میاں کے دوستوں کا مضحکہ اڑایا جاتا ہے۔

اس چھوٹی سی معصوم تفریح کی وجہ سے میاں بیوی ایک دوسرے سے قریب آجاتے ہیں دونوں میں رفاقت کا جذبہ بڑھتا ہے۔ لڑائی جھگڑے کے بغیر وقت کٹ جاتا ہے۔ گھر میں ایک ربط پیدا ہوتا ہے۔ یہ بظاہر چھوٹی سی بات بڑے عظیم نتائج پیدا کرتی ہے۔ خانہ آبادی کی ضامن بن جاتی ہے۔ گھریلو خوشی پیدا کرتی ہے۔ جینے کی آرزو بڑھاتی ہے مجھے قدرت اللّه پر ترس آتا ہے اس کا گھر کیسے چلتا ہوگا۔ وہاں دھول اڑتی ہوگی۔

قدرت اللّه کے گھر کے چند کوائف ملاحظہ ہوں۔قدرت اللّه کی بیگم صاحبہ ڈاکٹر عفت شہاب ایم بی بی ایس ہیں لیکن گھر میں کوئی بیمار پڑ جائے تو جوشاندے کا پیکٹ منگوایا جاتا ہے۔ مکہ معظّمہ میں محترمہ ڈاکٹر کیمسٹوں کی دوکانوں پر اسپغول تلاش کرتی ہیں۔ جب ہالینڈ میں مقیم تھیں تو پاکستان سے ترپھلا منگواتی تھیں۔ پانچ روپےکے ترپھلا پر تیس روپے محصول ڈاک کا خرچہ آتا تھا۔

محترمہ ڈاکٹر صاحبہ یوں شوقیہ نفل اور نمازیں پڑھتی ہیں جیسے بچےمیٹھی گولیاں چوستے ہیں یا دور جدید کے مریض وٹامن کھاتے ہیں۔

قدرت اللّه کا ایک بیٹا ہے جس کا نام ثاقب شہاب ہے ماں باپ نے پیار سے بچے کا جو پٹ نام(Pet name) رکھا ہے وہ ملاحظہ ہو۔مولوی صاحب مولوی صاحب کے جی میں پڑھتے ہیں عمر کے لحاظ سے انکی معلومات بہت وسیع ہیں اگر آپ مولوی صاحب کی بات سن کر پوچھیں میاں آپ کو اس بات کا علم کیسے ہوا تو وہ ایک شان ِ اسغفنے سے جواب دیں گے ۔سائنس پڑھتا ہوں کوئی مذاق تھوڑا ہے۔

چند روز کی بات ہے قدرت اللّه درزی کی دوکان پر پتلون کا ناپ دینے گئے مولوی صاحب بھی ہمراہ تھے جب قدرت پتلون کی موری کے معتلق ہدایت دے چکے تو مولوی صاحب بولے ۔ابو اگر آپ غرارے پہنیں گے تو میں آپ کو اپنے ساتھ باہر نہیں لے جایا کروں گا

بڑی بڑی باتوں کی عظمت سے مجھے انکار نہیں اونچے اور عظیم مقاصد کردار کے اعلی اوضاف ان سب باتوں کا میں احترام کرتا ہوں ۔بہرحال اس بات سے انکار نہیں کیا جاتا کہ زندگی چھوٹی چھوٹی باتوں سے عبارت ہے اور شخصیت کے تمام تر حسن کا دارومدار پھولوں پر نہیں بلکہ پتیوں پر ہے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے موہوم دکھ ،چھوٹے چھوٹے اللّه واسطے کے بغض ،چھوٹے چھوٹے لاگ، چھوٹے چھوٹے لگاوُ ،چھوٹی چھوٹی بے وجہ دشمنیاں ،چھوٹی چھوٹی ناراضگیاں ،چھوٹی چھوٹی غلط فہمیاں ،کج رویاں، یہ سب ایک عام شریف آدمی کیلے چھوٹی چھوٹی لذتیں ہیں غریبانہ عشرتیں ہیں ،معصوم عیاشیاں ہیں یہ وہ کھونٹیاں ہیں جن پر دوستی کی گٹھڑیاں ٹانگی جاتی ہیںنورین سے میرے بڑے گہرے مراسم ہیں ہماری دوستی کی وجہ یہ ہے کہ ہم دونوں کو برکت علی سے بیر ہے اور ہم دونوں اکھٹے بیٹھ کر برکت علی کے عیب گنتے ہیں ۔

یار محمد میرا بہت پرانا دوست ہے میں نے اسے اس لیے دوست بنایا تھا کہ وہ بھی گھر والی کے ہاتھوں مظلوم تھا۔ہم تقریباً روز ملتے تھے۔ادھر ادھر کی بات چھڑ جاتی ہے جو گھوم گھام کر چلتے کسی نہ کسی طور پر گھر والی پر آختم ہوتی ہے اور پھر ہمارا متفقہ فیصلہ ہوتا ہے کہ گھر والیاں بےوقوف ہوتی ہیں لہذا ان کی بات کو چنداں اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ یہ ہماری بات کا نقط عروج ہوتا ہے جس کےبعد محفل برخاست ہو جاتی ہے اور ہم دونوں میں گھر جانے کی ہمت پیدا ہو جاتی ہے۔

باہمی تعلق اور اور دوستی کا پنچھی کردار کے پھولوں پر نہیں بیٹھتا شخصیت کی ٹیڑھی میڑھی شاخوں پر بیٹھتا ہے۔

کردار کی عظمتیں دل میں لگاو اور محبت کے دیپ نہیں جلاتیں صرف جذبہ تحسین پیدا کرتی ہے۔ لیکن اس جذبےکے ساتھ ساتھ تھوڑا سا خوف بھی پیدا ہو جاتا ہے اور پھر ان جانے میں نیچے ہی نیچے اجتناب کی اک رو چل پڑتی ہے

قدرت اللّه کے پاس آپ گھنٹوں بیٹھے رہیں وہ کسی برکت علی کی بات نہیں چھیڑے گا گھر والی کی بےوقوفی کا زکر نہ کرے گا۔ اس کی زندگی میں کوئی برکت علی نہیں جس کی نندا کر کے اسے سکون حاصل ہو۔ جسے برا بھلا کہہ کر اسے سکون حاصل ہو۔ جسے برا بھلا کہہ کر اسے راحت محسوس ہو جسے نیچا دکھانے کے زبانی منصوبے بنا کر وہ اپنی زندگی میں تازگی پیدا کرے۔ قدرت اللّه کی زندگی میں کوئی ایسا شخص بھی نہیں جس کے گن گا کر اسے لذت محسوس ہو۔ اس کا کوئی دشمن نہیں۔ ویسے تو زندگی میں میرا بھی کوئی دشمن نہیں یہ نعمت ہر کسی کا حصہ نہیں۔ غالباً آپ کا بھی کوئی دشمن نہیں۔ لیکن ہم نے کئی ایک دشمن کھڑے کر رکھے ہیں دشمن نہ ہو تو،

یہ خیالی دشمنیاں جو شریف لوگ پیدا کر رکھتے ہیں دشمنیاں نہیں ہوتیں جینے کے سہارے ہوتے ہیں ۔یہ قدرت کیسا انسان ہے جو اتنی چھوٹی سی حقیقت کو نہیں سمجھتا ویسے بہت بڑا دانشور ہے سوجھ بوجھ کا مالک ہے لیکن زندگی کے اہم حقائق کو نظر انداز کیے بیٹھا ہے۔

قدرت اللّه سے کسی شخص  کی بات کرو ،جواب میں کہے گا اچھا آدمی ہے چاہے وہ سمگلر ہی کیوں نہ ہو۔ چاہے اس نے قدرت الله کے خلاف زیرِ لبی تحریک چلارکھی ہو۔

ایک روز ایک شاہ صاحب قدرت اللّه سے ملنے کیلے تشریف لائے۔

قدرت اللّه شاہ صاحب سے ملنے کے بعد بہت مسرور تھا ۔کہنے لگا خوب آدمی ہے ۔میں نے پوچھا کون تھا بولا ایک زبردست عامل ہے۔ شیطانی قوتیں زیر کر رکھی ہیں۔ لوگوں سے اعلانیہ پیسے بٹورتا ہے بلیک میل بھی کرتا ہے لیکن کام سب کا کردیتا ہے۔ خوب آدمی ہے۔ ارے میں نے غور سے قدرت کی طرف دیکھا خوب آدمی ہے ۔قدرت اللّه کیلے ساری دنیا کےآدمی خوب آدمی ہیں۔ ۔

ایمان سے کہیے کیا آپ نے ایسا منطق سنا ہے کہ اول درجے کا شیطان ہے لوگوں کو بلیک میل کرتا ہے لہذا خوب آدمی ہے یہ منطق انسان کا منطق تو نہیں ہاں اللہ تعالی کا منطق ضرور ہے۔ اگر یہ منطق انسان کا ہوتا تو زندگی کا حسن ختم ہو جاتا۔ اگر یہ منطق اللہ تعالی کا نہ ہوتا تو دنیا کا شیرازہ بکھر جاتا۔ تو کیا قدرت اللّه صاحب اللہ تعالی بننے کی کوشش فرما  کر رہے ہیں ۔

قدرت اللّه کی یہ چھوٹی چھوٹی باتیں اس کی شخصیت پر روشنی نہ ڈال سکیں مفت میں ممتاز مفتی کا زہن دھندلاتا ہے۔اللہ واسطے کو چھوڑئیے قدرت اللّه کے دل میں کوئی جائز بغض نہیں ۔کوئی لاگ نہیں۔ اس کی طبعیت میں کوئی چڑ نہیں کج روی نہیں وہ کسی سے ناراض نہیں ہوتا اسے کبھی غصہ نہیں آتا۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ منٹو نے کیا پتے کی بات کی تھی میں کسی کی تعریف میں کچھ کہہ رہا تھا ۔منٹو نے چلا کر کہا مفتی چھوڑ یار کس کی بات کررہا ہے تو۔ اس سالے کو غصہ بھی نہیں آتا۔ مانا کہ غصہ حرام ہے مانا کہ غصہ ایک چھری ہے جو انسان اپنے ہی سینے میں گھونپتا ہے مانا کہ غصے میں آپ انسانوں کہ صف میں آشامل ہوتے ہیں۔ اس سرکار میں پہنچ کر سبھی ایک ہو جاتے ہیں نہ کوئی محمود رہتا ہے نہ کوئی ایاز۔ یہ قدرت کیسا ایاز ہے جو الگ صف بناے کھڑا ہے جو ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بناے بیٹھا ہے ۔حیرت ہے کہ اس کی یہ مسجد چلتی ہے ہمارے عام دربار سے زیادہ چلتی ہے ۔لوگ اس کے گن گاتے نہیں تھکتے ۔لوگوں کی باتیں چھوڑئیے۔ وہ قدرت سے دور ہیں اس لیے جانتے ہیں میں جو قدرت سے قریب ہوں جو قطعی طور پر نہیں جانتا۔ میں بھیباس کے گن گانے پر مجبور ہوں۔ روزانہ بیسیوں لوگ قدرت سے ملنے آتے ہیں جو ملنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں خوشی خوشی گھر لوٹ جاتے ہیں جیسے مل لینا بذاتِ خود تکمیل کار ہو جنہیں مسلسل انتظار کے بعد مایوس لوٹنا پڑتا ہے وہ گھر پہنچنے سے پہلے اسے معاف کر چکے ہوتے ہیں جن کے کام ہوجاتے ہیں وہ اس کے گن گاتے ہیں جن کے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچے وہ یوں مطمن ہو جاتے ہیں جیسے ان کا مقصد کام نہیں محض ملاقات تھا۔

آپ قدرت اللّه کے گھر جائیں آپ کو علم ہو گا کہ وہ گھر پر موجود ہے اگر نوکر آکر کہہ دے کہ صاحب گھر پر نہیں تو پتہ نہیں کس انجانے اصول کے تحت آپ کا تمام تر غصہ نوکر پر مرکوز ہو جاے گا۔ اور قدرت صاف بچ کر نکل جاے گا۔

ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ایک اعلی افسر جو بہت قابل ہے کقم کرنے میں انتھک ہے اور جس کے دل میں ملک کا درد ہے قدرت اللّه سے کہہ رہا تھا یار سمجھ میں نہیں آتا ہم ابھی ملک کیلے جان کی بازی لگائے بیٹھے ہیں۔لیکن جب نکتہ چینی کا موقع ہوتا ہے تو کوگوں کو ہمارا نام۔ یاد آجاتا ہے اور جب واہ واہ کی محفل جمتی ہے تو تمہارا تذکرہ چھڑ جاتا ہے۔

ہاں مجھے اس افسر سے اتفاق ہے مجھے اس افسر سے ہمدردی ہے مجھے احساس ہے کہ اس نے کیا پتے کی بات کہہ دی جس کے مفہوم کو ہم سب کو سمجھنا چاہئے لیکن جانتے بوجھتے ہوئے نہ سمجھنےپر مضر ہیں۔

ظاہر ہے قدرت اللّه ایک ایسا بچہ ہے جسے سونے کا چمچہ عطا ہوا ہے جس کا نیک نامی پیچھا کرتی ہے حتیٰ کہ اس کے دشمن بھی اس کی تعریف کرنے سے باز نہیں رہ سکتے ۔

یہ سونے کا چمچہ اسے کس نے عطا کیا کیوں۔ کیوں میں اور آپ اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ وہ ہماری صف میں شامل نہیں ۔وہ ہمارا دوست نہیں۔ وہ کسی کا دوست نہیں۔ اس کی شخصیت میں کھونٹیاں ہی نہیں جن پر دوستی کی گٹھڑی ٹانگی جاسکتی ہے۔ اس میں وہ عوامی خصوصیتیں نہیں جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتی ہیں۔ ۔

اوضاف ہمیں ایک دوسرے کے قریب نہیں لاتے کمزوریاں لاتی ہیں، بے بسیاں لاتی ہیں ۔محتاجیاں ،کم ظرفیاں ،کج رویاں لاتی ہیں۔

اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے جوبہم۔ میں سے نہ ہو اسے ہم کبھی  معاف نہیں کر سکتے ۔پھر ہم سب آپ اس اور میں کیوں اسے معاف کئیے بیٹھے ہیں کیوں اس کی تعریف میں رطب اللسا۔  ہیں شاید آپ کے جواز میں یہ کہیں اس لیے کہ قدرت اللّه ایک نیک آدمی ہے ۔

یقین جانئیے میں بھی نیک آدمیوں کی عزت کرتا ہوں ۔انہیں احترام کی نظر سے دیکھتا ہوں لیکن پتہ نہیں کیوں اگر وہ قریب آجائیں تو گھبراہٹ سی ہوتی ہے جی چاہتا ہوں اٹھ کر چلا جاوں ،دور بھاگ جاوں۔

پتہ نہیں کیوں مجھے خالص نیک آدمی سے عجیب سی بو آتی ہے ۔کوئی نیک آدمی آجائے تو محسوس کرتا ہوں جیسے اس کا بند بند چلا چلا کر کہہ رہا ہو ہٹ جاو ،بچ جاو ،نیک آدمی آرہا ہےپتہ نہیں نیکی کی یہ خصوصیت ازلی ہے یا رسمی ۔بیر صورت نیک آدمی سے بو آتی ہے بدبو نہیں ۔خالی ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ وہ خوشبو ہو لیکن وہ اتنی تیز ہوتی ہے اور اس قدر شدت سے آپ پر حملہ کرتی ہے کہ خوشی کا عنصر ختم ہو جاتا ہے اور بو سے چاروں اطراف بھر جاتے ہیں۔

پتہ نہیں کیوں خالص نیک آدمی میں نیکی کے اتنے ڈھیر لگ جاتے ہیں کہ آدمی دب جاتا ہے۔

چاہے کوئی خصوصیت ہو جو آدمی کو دبا دے چاہے وہ خصوصیت کتنی ہی مثبت کیوں نہ ہو وہ وصف کتنا ہی عظیم نہ ہو اگر وہ آدمی کو دبا دے تو عفریت کا شبہ ہونے لگتا ہے ۔بے شک قدرت اللّه نیک آدمی ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس میں سے بو نہیں آتی اس کے قریب جا کر گھبراہٹ نہیں ہوتی ۔دور بھاگنا تو درکنار پاس بیٹھنے کو جی چاہتا ہے ۔آخر کیوں؟ قدرت اس اذول سے کیوں مشنشےٰ ہے قدرت سے کیوں بو نہیں آتی ۔نیکی کے ڈھیر تو لگے ہیں۔ لیکن آدمی ان ڈھیروں تلے دبنے کے برعکس ڈھیر کے اوپر بیٹھا ہے جیسے وہ ڈھیر اس کا پایہ ستون ہو۔

قدرت اللّه ہماری صف میں نہیں کھڑا ۔وہ ہمارے مشاغل نہیں اپناتا ۔وہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں بیٹھا ہے پھر بھی یوں لگتا ہے جیسے وہ ہم میں سے ہو ایسا کیوں ہے؟

آپ اسے برا سمجھنے کی کوشش کر دیکھیں مگر نہیں ۔اگر اسے بر سمجھنے کی کوشش نہ کیجئے ۔قدرت کو برا سمجھنے کی کوشش بے سود ہے خوامخواہ آپ احساسِ جرم کے پسینے سے بھیگ جائیں گے ۔

ْقدرت اور میں دونوں خانہ خدا کے قریب بیٹھے تھے ۔میں نے پوچھا نیک آدمیوں سے بو کیوں آتی ہے ؟وہ عفریت کیوں بن جاتے ہیں۔ اس نے کہا یہاں کوئی نیک آدمی نہیں یہاں اللہ کے سوا کا چراغ نہیں جلتا۔ یہاں سب انسان ہیں خالی خولی انسان ،یہ تمام گناہ کاروں کی جنت ہے یہ کہہ کر وہ عبادت میں مصروف ہو گیا۔پھر جو میری نگاہ اس پر پڑی تو میں حیران رہ گیا۔اس کے بیٹھنے کا انداز مختلف تھا جیسے تاسف ندامت اور توبہ سے بند بند بھیگا ہوا ہو۔ارے یہ کیا ڈھونگ ہے ۔جو شخص عام انسانی کمزوریوں سے محروم ہو وہ یوں بیٹھے جیسے مجھ سے بھی بڑا گنہگار ہو ہو۔اس پر مجھے غصہ آنے لگا۔اب کیا گناہ گاری میں یہ مجھ سے بازی لے جائے گا۔میرا ایک ہی امتیاز ہے کیا وہ بھی خاک میں مل جائے گا۔یہ مقام میری جنت ہے میری اس کی نہیں۔

میں نے بہت کوشش کی میں بھی اس طرح بیٹھوں جس طرح قدرت بیٹھتا تھا۔یقین جانیے میں گنہگار ہی نہیں مجھے گناہ گار ہونے کا احساس بھی ہے۔میں نے بہت کوشش کی کہ میں عجز سے بھیگ جاوں ۔خانہ خدا کے قدموں میں میرا بھی رواں رواں حاضر ہو جائے۔میں بھی اس احساس سے بھر جاوں کہ میں اپنے اللہ کے حضور میں حاضر ہوں ۔یہ سب بے کار مسلسل کوشش کے باوجود میں قدرت کا سا گناہ گارانہ انداز پیدا نہ کر سکا۔حد ہوگئی وہاں نیک بن کر عزت کرواتا رہا اور یہاں گناہ گار بن بیٹھا۔۔ابنِ الوقتی کی انتہا ہوگئی۔مجھے طیش آگیا۔میں نے اللہ کے حضور میں دہائی دی ،یا باری تعالی یہ شخص جو میرے دائیں ہاتھ بیٹھا ہے جھوٹا ہے بےشک اس میں عجز ہے لیکن یہ گناہ گار نہیں۔

گناہ گار میں ہوں میں۔

پندرہ روز اس پاک سر زمین پر بیشتر  ہم دونوں اکھٹے اللہ اور محمد کے حضور بیٹھے رہے۔

پندرہ روز شہاب نہیں تھا۔اہلکار نہیں تھا۔دانشور اور ادیب کیا ہوتا۔پڑھا لکھا ہی نہیں تھا،شوہر نہیں تھا صرف انسان تھا۔ایسا انسان کو احساس گناہ سے بھیگا ہوا جیسے ابھی ابھی دانہ گندم کھانے کے بعد بہشت سے زمین پر پھینک دیا گیاہو اور اس کے رسول کے حضور آہ وزاری کرنے کے سوا اسے کوئی کام نہ ہو۔

ان پندرہ دنوں میں مجھ سے بھی زیادہ بوڑھا ہو گیا تھا۔اسے انجائنا کے کئی ایک دورے پڑ چکے تھے وہ چلتے ہوئے لڑکھڑاتا تھا۔اس کے باوجود روز رات کے ڈھائی تین بجے وہ مجھے جگا دیتا۔چلو مسجد جانے کا وقت ہو گیا۔

مسجد نبوی کے دروازے رات نو بجے بند ہو جاتے ہیں اور صبح تین ساڑھے تین بجے کھلتے ہیں جب بابِ جبرائیل کھلتا تو قدرت لڑکھڑاتا ہوا دھکے کھاتا اندر داخل ہوتا ۔میں دھکے دیتابھی تھا۔وہ صرف کھاتا تھا۔اس لڑکھڑاتے ہوئے نحیف و نزار بڈھے کو دیکھ کر میرے دل میں ترس پیدا ہوجاتا۔

سبز جالی کے قریب وہ ایک جگہ نفل پڑھتا دوسری جگہ دعا پڑھتا اور پھر فاتحانہ انداز میں مجھ سے کہتا چلو اب مسجد میں چلیں۔یہیں کیوں نہ بٹھیں۔میں نے پہلی مرتبہ کہا۔نہیں وہ بولا۔دوسروں کو بھی موقع دینا چاہیے ۔

ایک روز رات کے نو بجے سفارہ پاکستان کا ایک اہلکار ہماری قیام گاہ پر آیا۔کہنے لگا شاہ فیصل نے پاکساتن کے معزز مہمانوں کیلے مسجد نبوی کو رات دس بجے کھولنے کی اجازت فرمائی ہے۔آپ جہاں چاہیں اطمینان سے نوافل پڑھ سکیں گے ۔تشریف لے چلئے۔

قدرت پر ایک عجیب سی گھبراہٹ طاری ہو گئی۔اس نے معزرت کی کہنے لگا آپ کا بہت بہت شکریہ لیکن میری طبعیت اچھی نہیں۔

اس رات تین بجے اس کی طبعیت حسبِ معمول اچھی تھی اور وہ باب جبرائیل سے داخل ہوتے ہوئے دھکے کھا رہا تھا ،لڑکھڑا رہا تھا۔

ظاہر تھا کہ اسے گوارا نہ تھا کہ بابِ جبرائیل سے آستانہ مبارک میں کسی خصوصی حیثیت سے داخل ہو۔آستانہ مبارک میں دھکے کھاتے ہوئے نحیف ونزار عام انسان کی حیثیت سے داخل ہونا یہی اس کی معراج تھی۔

آپ ہی فیصلہ کیجئے کیا ان تفصیلات سے قدرت اللّه کی شخصیت کی گھتی سلجھتی ہے انسانی کوتاہیوں کی طرف دیکھو تو وہ ہم سے الگ ہے بلندیوں کی طرف دیکھو تو وہ انسان ہے لیکن سر زمین حجاز کی یہ باتیں تو الگ موضوع ہے جنہیں شاید میں کبھی میں الگ مضمون میں پیش کر سکوں۔

قدرت اللّه وہ اونٹ ہے جس کی کوئی کل بھی سیدھی نہیں۔ اس کے باوجود ہم اسے متبرک سمجھتے ہیں

اس بات میں یقنناً آپ مجھ سے متفق ہوں گے کہ ہر انسان کا جی چاہتا ہے کہ دوسروں کو نصیحت کرے ۔دوسروں کو نصیحت کرنا ایک انسانی خواہش ہے ایک معصوم عشرت ۔ایسی لذت جس میں نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔

جس کو نصیحت کی جائے اس کا کچھ نہیں بگڑنا چاہئے وہ نصیحت پر قطعی طور پر عمل نہ کرے ۔چاہے گھر جاکر اس کا مضحکہ اڑائے۔ چاہے اس کان سنے اس کان اڑا دے۔ لیکن نصیحت کرنے والے کی چند ساعت کیلے ایک حیشیت بن جاتی ہے۔

احساس برتری کی ایک رو چلتی ہے۔خون میں ایک گرمی سی پیدا ہو جاتی ہے ۔آنکھوں میں روشنی چمکتی ہے۔چند ساعت کیلے گزشتہ تلخیاں معدوم ہو جاتی ہیں۔جینے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے ۔یہ چھوٹی سی عشرت کس قدر معصوم اور کتنی صحت بخش ہے میرا بھی جی چاہتا ہے ہر کسی کو نصیحت کروں ۔ہر آتے جاتے کو روک کر کہوں نہ بھائی اس طرح نہیں کیا کرتے۔

بچپن میں جب میرے بزرگ مجھے نصیحتیں کیا کرتے تھے تو مجھے اس بات پر غصہ آتا تھا کہ خود تو کرتے نہیں مجھے کرنے کیلے کیوں کہتے ہیں پھر مولوی کفایت احمد سے مل کر سارا پول کھل گیا بات سمجھ میں آگئی۔ مولوی صاحب میرے پڑوسی تھے ۔جب وہ اپنی بیوی سے جملہ محلے والوں کی خامیوں پر تفصیلی تبصرہ کرنے سے اکتا جاتے تو میرے پاس آبیٹھتے اور مجھے سمجھاتے کہ دوسروں کی غیبت کرنا اللہ تعالی کو سخت ناپسند ہے۔

اگر آپ چند ساعت کیلے اجلے کپڑے پہن کر میلے لوگوں کو صفائی کی تلقین کریں تو یہ ایک معصوم سی لذت ہے قدرت اللّه اس انسانی لذت سے سراسر منکر ہے وہ کبھی آپ کو نصیحت نہیں کرے گا۔ اس نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے ظاہر ہو کہ وہ دوسروں کی طرح میلا نہیں وہ کبھی اجلے کپڑے پہن کر آپ کے پاس نہیں بیٹھے گا۔اس نے کبھی کسی کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ آپ کچھ کر رہے ہیں وہ نامناسب ہے آپ اس کے پاس بیٹھ کر شراب پئیں وہ آپ کو کبھی نہیں ٹوکے گا۔ بلکہ وہ آپ کے اس فعل کو چنداں اہمیت ہی نہ دے گا۔ جیسے آپ شراب نہیں شربت پی رہے ہوں۔آپ اس کی موجودگی میں کفر و الحاد کی باتیں چھیڑ دیں وہ چپ چاپ بیٹھا سنتا رہے گا اور نماز کے وقت باتھ روم کا بہانہ کر کے خلوص و خشوع سے سجدہ کرنے کے بعد واپس آکر اسی توجہ سے آپ کی باتیں سننے لگے گا۔ اگر کفر والحاد کی باتوں میں گستاخی کا عنصر ناقابلِ برداشت ہو جائے تو وہ بڑی چابکدستی سے موضوع بدل دے گااور آپ کو یہ احساس بھی نہ ہو گا کہ موضوع بدلا نہیں بلکہ بدل دیا گیا ہے۔

ہاں ایک مرتبہ قدرت اللّه نے مجھے نصیحت کی تھی ۔اس کے کوائف بھی کافی سبق آموز ہیں۔ اس نصیحت کو حاصل کرنے کیلے مجھے گھنٹوں محنت کرنی پڑئی۔ جیسے کہ ایک امید کی بوند میں سوکھے ہوئے لیموں کو دبا دبا کر انگلیاں تھک جاتی ہیں۔

ہم دونوں مسجد نبوی میں بیٹھے تھے ۔مسجد نبوی میں وہ ہمارا آخری دن تھا۔ میں نے کہا اس مقدس زمین سے کچھ لے کر جانا چاہئیے۔

اچھا وہ بولا۔

ایسی چیز جو زندگی بھر ساتھ رہے ۔

ہاں وہ بولا زندگی بھر ساتھ رہے۔

کیا حرج ہے اس نے جواب دیا۔

کیا لے کر جاوں۔

کیا لے جانا چاہتے ہیں آپ؟

کوئی ایسی چیز جیسے میں نبھا سکوں۔

ہاں یہ تو ہے ۔صوم وصلوت نہیں لے جاسکتا

کیوں ؟

مجھ سے نبھے گا نہیں۔

اچھا مشکل ہے۔

مشکل ہے، بے قائدہ آدمی کیلے مشکل ہے۔

ہاں بے قائدہ آدمی کیلے مشکل ہے۔

کوئی کردار کی بات ہو۔

ہاں کردار کی بات ہو۔

کردار کی بات سب سے بڑی سنت نہیں کیا۔

ہاں سب سے بڑی سنت ہے۔

مثلاً کیا ہو ؟میں نے پوچھا

کیا ہو؟ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ ۔۔۔کیا ہو سکتا ہے۔

مثلاً یہ کہ دل میں کسی کے بارے میں میل نہ آنے دوں گا۔ کچھ ایسا ہو۔

کیوں کیا خیال ہے۔

ہاں کچھ ایسا ہو۔ وہ بولا۔

کوئی واضح بات ہو۔ جس کے خدوخال واضح ہوں۔

ہوں،وہ بولا۔ ایک بات سمجھ میں آتی ہے۔

وہ کیا؟

اگر آپ پسند کریں تو ۔

ہے کیا۔ میں نے پوچھا۔

یہ کہ دوسروں سے خوش نہ رہ سکا تو کم ازکم کسی سے ناخوش نہیں رہوں گا۔

دفعتاً مجھے خیال آیا کہ یہی تو قدرت اللّه کے کرادار کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔وہ ہر شخص سے خوش رہتا ہے میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ وہ کسی سے ناخوش ہو۔ قدرت اللّه کی محبت کے کوائف انوکھے ہیں۔ ویسے تو بظاہر ہر شخص کی محبت کے کوائف انوکھے ہوتے ہیں۔ کوئی محبوبہ کو فرشتوں سی پاکیزگی بخش کر اپنے آپ پر حرام کر لیتا ہے۔ اور بقیہ زندگی آہیں بھرنے اور غم کھانے کی لذت کیلے واقف کر دیتا ہے ۔کوئی محبوبہ کو بیسوا کی حہشیت عطا کر کے روزِ دل پر تازہ چوٹ کھانے کا سامان پیدا کرتا ہے ۔کوئی پھولوں کی خوشبو سے مستی اخز کرتا ہے ۔کوئی پتیاں نوچنے کی لذت اپنا لیتا ہے ۔کوئی کلی کلی رس چوستا ہے ۔لیکن یہ دلچسپ کوائف محبت کے نہیں بلکہ جنس کی آمیزش سے پیدا ہوتے ہیں۔ محبت بذاتِ خود پھیلےطہوئے ساکن سمندر کی طرح ہمہ گیر جذبہ ہے۔ جب محبت میں جنس کا خمیر اٹھتا ہے تو طوفان چلتے ہیں ۔چھینٹے اڑتے ہیں۔ جھاگ پیدا ہوتا ہے ۔یوں محبت کے کوائف مرتب ہوتے ہیں۔

قدرت ایک ازلی محبت ہے ۔یہ شمع پروانوں کو دعوت دینے کیلے جلتی ہے۔

پروانے اکھٹا ہوجائیں تو اس کی تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز ہو جاتی ہے کہ شعلے کی آگ کو جذب کر کے معدوم کردے تاکہ صرف روشنی ہی روشنی باقی رہ جائے۔ ٹھنڈی روشنی جو جلاتی نہیں بلکہ منور کر دیتی ہے۔ شعلےطکی آگ کو نور میں بدلنے کے عمل میں قدرت ازیت کے جن مراحل سے گزرتا ہے انہیں بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں۔

قدرت اللّه ایک ایسا تپسوی ہے جس کی اپنی خواہش ہے کہ کوئی راج نر تکی اس گیان دھیان توڑنے والی تپسوی کے چرنوں میں خوددھیان لگا کر بیٹھ جائے۔ اور بالاآخر تپسوی سے بے نیاز ہو جائے۔

اس لحاظ سے قدرت الله ایک اتیہ چار ہے جو ازلی طور پر بے نیاز ہونے کیلے عورت کو استعمال میں لاتا ہے۔ جو تن کی آگ کو نور میں بدلنے کیلے نسائی شعلے کو قرب کی دعوت دیتا ہے وہ ایک انوکھا فنکار ہے جو آگ کو آگ سے بجھاتا ہے ڈوبنے سے بچنے کیلے پانی میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔میں نے ان آنکھوں سے اسے گیان دھیان میں سرشار بدھ بنے دیکھا ہے۔ میں راج نر تکیوں کو اس کے گرد ہروے کا ناچ ناچتے دیکھا ہے۔ ایسی راج نرتکیاں جن کے ایک آسن کا متحمل ہونا بعیداز قیاس معلوم ہوتا تھا۔ آگ کو نور میں بدلنے کی جانکا جدوجہد میں۔ میں نے اسے ساحل کی تپتی ریت پر مگر مچھ کی طرح تڑپتے دیکھا ہے۔

بیشتر راج نرتکیاں ہار کرانا کے بندھن سے آزاد ہوگئیں۔ اور فریضہ حج ادا کر کے زندگی کے پرسکون حجروں میں سماگئیں۔ ایسی بھی تھیں جو اپنی ہار کو برداشت نہ کر سکیں اور مایوسی میں خواب آور گولیوں کے سہارے کی طرف بڑھیں۔

میری آخری دلیل بے حد بوری ہے یہ دلیل دوسروں کے بیانات پر مبنی ہے یہ بیانات عقل و ادراک سے عاری معلوم ہوتےطہیں۔ لیکن میں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوں کہ ان سری سری بے مقصد بیانات نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے۔ اگرچہ اب بھی کبھی کبھار بیٹھے بیٹھائے مجھے یہ بیانات مضحکہ خیز معلوم ہونے لگتے ہیں۔

یہ 1958 کی بات ہے جب قدرت اللّه نے مجھ سے ملنا شروع کیا اور ہم تقریباً روز ملتے تھے ان دونوں میں کراچی ناظم آباد میں مقیم تھا۔ دو روز کیلے میرے ہاں ایک مہمان آٹھہرے۔ یہ صاحب شور کوٹ کے کسی بزرگ کے بڑے قائل تھے۔ بات بات پر ان کا تذکرہ چھیڑ دیتے ۔انہوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں شور کوٹ کے بزرگ کو خط لکھوں ۔اور دعا کیلے درخواست کروں ،جان چھڑانے کیلے میں نے ایک مختصر سا روکھا سا خط لکھ دیا۔ چند روز کے بعد ان کا جواب موصول ہوا لکھا تھا آپ جن صاحب سے آجکل مل رہے ہیں انہیں ہمارا سلام کہئے ۔یہ شخص مدینے کا خاص غلام ہے یہ شخص دنیا بھی لوٹ کر لے گیا ۔اور دین بھی۔

اس خط کو پڑھ کر میں حیران رہ گیا کیا وہ قدرت اللّه کی بات کر رہے تھے دین کا تو مجھے علم نہ تھا ۔لیکن جو دنیا قدرت اللّه نے لوٹی تھی اس سے میں خاصا واقف تھا۔

ان دنوں قدرت اللّه صدر کا سیکرٹری تھا۔ لیکن وہ اپنے دفتر میں یوں داخل ہوا کرتا تھا جیسے جونئیر کلرک جو لیٹ آیا ہو اور ڈر رہا ہو کہ کوئی اسے دیکھ نہ لے۔ اس کی آفسری برائے نام معلوم پڑتی تھی ۔اور وہ خود جیسے اپنی آفسری پر معذرت خواہ تھا۔ جب پہلی مرتبہ میں نے قدرت اللّه  کو فون کرتے دیکھا تو مجھے لالہ رام لال یاد آگئے۔ لالہ رام لال ہمارے ہیڈ ماسٹر تھے جب کبھی لالہ جی کو کسی آفسر کا ٹیلیفون آتا تو لالہ جی لپک کر اپنی پگڑی اٹھاتے اسے سر پر رکھ کر ننگے پاوں کھڑے ہو جاتے اور فون پر کہتے جی مہاراج میں لالہ رام لال بول رہا ہوں مہاراج۔

اگرچہ بظاہر قدرت پوری طرح سے سوٹ بوٹ میں ملبوس تھا لیکن انداز سے ظاہر ہو رہا تھا ۔کہ اس کے پاوں ننگے ہیں سر پر بھاری پگڑی رکھی ہوئی ہے اور وہ باادب کھڑا کہہ رہا ہے جی مہاراج میں لالہ رام لال بول رہا ہوں۔

صاحب کے بلاوے پر میں نے قدرت اللّه کو کاپی پنسل اٹھا کر صدر کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے دیکھا ہے ۔جیسے کسی کلرک کو عارضی طور پر پی اے کا کام مل گیا ہو۔

یہ حال تھا قدرت اللّه کی آفسری کا ۔حقیقت یہ ہے کہ اس کی شخصیت میں حکومت آفسری کا کوئی عنصر نہیں ۔نفسیاتی تحقیق کے ادارے میں جہاں میں کام کیا کرتا تھا۔ امیدواروں کی تجزیاتی رپورٹ میں ایک خانہ ہوتا تھا۔ جس میں لکھا تھا کیا امیدوار میں آفسر بننے کی صلاحیت ہے۔ آفسر بننے کی صلاحیت کے کوائف کیا تھے۔ا۔ احساس نہ ہو۔ 2۔شدت نہ ہو۔ 3۔پچھتاوے کی عادت نہ ہو۔ 4۔طبعیت میں ادبی یا فنکارانہ رنگ نہ ہو۔ 5۔اپبے آپ کو کم تر نہ سمجھے۔ 6۔فوری فیصلہ کرسکے چاہے غلط ہو۔ 7۔اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ جو میں کرتا ہوں درست ہے۔ 8۔حکومت کی بو ہو۔ 9۔رحم یا ترس کے جذبے سے پاک ہو۔ 10۔انصاف کی بجائے ایڈمنسٹریشن کی لگن ہو۔

اگر آئی سی ایس  کے امتحان میں قدرت اللّه کی شخصیت، کی رپورٹ مجھ سے لکھوائی جاتی تو میں لکھتا امیدوار میں آفسر بننے کی صلاحیت نہیں۔

رہا ذہانت کا مسلہ ،میں تسلیم کرتا ہوں کہ قدرت اللّه بے حد ذہین ہے بے شک افسر میں ذہانت کا ہونا ضروری ہے لیکن اتنی نہیں جتنی قدرت اللّه میں ہے اس کے علاوہ افسر میں ذہانت اس قسم کی ہونی چاہیے جو پیچھے پیچھے چلتی ہے آگے آگے نہیں۔

قدرت اللّه اپنی ذہانت یوں چھپا چھپا کر رکھتا ہے جیسے وہ چوری کا مال ہو ۔آپ تو جانتے ہی ہیں ذہانت چھپانے کی چیز نہیں۔ وہ تو ایک زیور ہے جسے دانشور ماتھے پر ٹیکے کی طرح لگاتے ہیں اس کی نمائش کرتے ہیں۔ اس سے شخصیت کا حسن اخذ کرتے ہیں۔ یہ قدرت اللّه کیا چیز ہے کہ ماتھے کا ٹیکہ کوٹ کے اندر کی جیب میں چھپا کر رکھتا ہے۔

دنیا لوٹنے کی بھی ایک تفصیل سن لیجئے ۔سکندر مرزا کے دور میں صدر گھر میں رکشے کا داخلہ ممنوع تھا ۔لیکن قدرت اللّه روز رکشے میں دفتر آتا تھا۔ جب قدرت اللّه کا رکشا چیختا چلاتا دھواں اڑاتا ہوا صدر گھر میں داخل ہوتا ہے تو سب افسروں اور اہلکاروں کو علم ہو جاتا کہ قدرت اللّه دفتر آگیا ہے کہتے ہیں سکندر مرزا اس وقت قلم رکھ کر بیٹھ جایا کرتے تھے اور آپ ہی آپ مسکرایا کرتے ۔اگرچہ سکندر مرزا میں مزاح کی بڑی صلاحیت تھی لیکن آخر تھے تو بادشاہِ وقت۔ ایک روز جب قدرت اللّه کے رکشے نے بہتطاودھم مچایا تو تالی بجا کر بولے کوئی ہے جو ہمیں اس رکشا سے نجات دلائے۔

سکندر مرزا کی یہ بات سارے صدر گھر میں افواہ کی طرح پھیل گئی ۔پھر مشوروں اور پیش کشوں کا ایک تانتا لگ گیا۔

کسی نے کہا صدر گھر میں موٹریں بے کار پڑی رہتی ہیں پڑے پڑے زنگ لگ جاتا ہے اگر ایک موٹر آپ کے ہاں بھجوادیں تو کیا حرج ہے ۔دوسرے نے کہا ہر روز صبح ایک کار یہاں سے جاتی ہے اگر آپ پسند کریں تو واپسی پر آپ کو دفتر لے آیا کرے۔

دھیرے دھیرے بات سیٹھوں تک پہنچی چار ایک سیٹھوں نے قدرت اللّه کو کار تحفتاً دینے کی پیش کش کر دی ۔آخر بات کلرکوں تک پہنچی ۔کلرک لوگ بڑے ہوشیار ہوتے ہیں ہر بات پر رول اور ریگولیشن کا پردہ ڈالنے کی مہارت کو کام میں لاتے ہیں ۔ایک نے کہا حضور آپ پسند کریں تو جی پی فنڈ سے کار کیلے قرضے کی عرضی لکھ دوں ۔دوسرے نے ہوشمندی سے قدم اٹھایا ۔پہلے قدرت کی پے بل پر فائل کا مطالعہ کیا۔ بات واضح ہو گئی ۔سیکرٹری ہونے کے باوجود کٹ کٹاو کے بعد قدرت کی نقد تنخواہ دفتر کے سیکیورٹی افسر سے بھی کچھ کم نکلی ۔کلرک نے مناسب موقع پاکر کہا سر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کار ایڈوانس آج ہی لے لیں اوع اور قسط کی ادائیگی کچھ عرصہ بعد شروع ہو ۔تیر نشانے پر بیٹھا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ قدرت نے ایک چھوٹی سی کار خرید لی جسے دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے صدر گھر کی کار نے بچہ دیا ہے ۔صدر گھر کے سنتری قدرت کی کار کو ایش ٹرے کہا کرتے تھے۔

کیا یہ تھا وہ شخص جس نے دنیا کو لوٹ لیا تھا ۔یقنناً شور کوٹ کے بزرگ بے تکی ہانک رہے تھے ۔پھر مجھے خیال آیا کیا پتہ انہوں نے اپنے خط میں کسی اور شخص کے معتلق لکھا ہو۔ لیکن چند دن کے بعد بات واضح ہو گئی ۔شور کوٹ سے ایک اور خط موصول ہوا لکھا تھا ہم آپ کیلے دعا گو ہیں کیا آپ نے ہمارا سلام قدرت اللّه شہاب تک پہنچا دیا تھا۔

علم نجوم میں میری دلچسپی کو دیکھ کر قدرت نے مجھ سے کہا مفتی صاحب آپ محترمہ سے ملیں ۔وہ کون ہیں ۔میں نے پوچھا کہنے لگے وہ ایک نیک اور پاکیزہ خاتون ہیں ۔جنہیں مستقبل یوں دکھائی دیتا ہے ۔جیسے یہ سامنے دیوار پر ٹنگی ہوئی قائداعظم کی تصویر۔

اگلے روز ہم قافلے کی صورت میں محترمہ کے گھر پہنچے احمد بشیر، ابنِ انشاء، خلق ابراہیم، قیصر اور میں۔

قدرت نے جو کچھ محترمہ کے معتلق کہا تھا وہ سچ ثابت ہوا۔ محترمہ نیک اور پاکیزہ خاتون تھیں اس کے علاوہ وہ صاحبِ نظر بھی تھیں۔ ۔

کچھ دیر کے بعد وہ خاتون قدرت اللّه کے گھر آئیں کہنے لگیں میرا ارادہ تھ ا اعتکاف کروں ۔

کل رات مجھے اشارہ کیا گیا ہے کہ کسی پاکیزہ مکان میں اعتکاف کرو اور ساتھ ہی آپ کا گھر دکھایا گیا ہے لہزا آپ اجازت دیں تو میں یہاں اعتکاف کروں۔کیا ساری کراچی میں قدرت کا گھر پاکیزہ تھا کیا قدرت اللّه کے گھر کی اس قدر، منزلت تھی اور قدرت کا گھر کیا تھا ایک میاں ایک بیگم اور چاروں طرف پھیلی ہوئی متبرک اداسی۔

پھر قدرت اللّه راولپنڈی میں آمقیم ہوئے۔ ایک روز قدرت الله کے نام ایک خط موصول ہوا۔یہ خط خوشاب کے ایک شب بیدار ایڈووکیٹ ملک صاحب کا تھا۔ لکھا تھا ۔میں آپ سے واقف نہیں ہوں میں نے سنا تھا آپ کے ہاں کوئی بچہ نہیں۔ لہذا ہر روز تہجد کی نماز پڑھ کر آپ کیلے دعا مانگا کرتا تھا ۔کل رات چند ساعت کیلے ایک بچہ میری گود میں ڈال دیا گیا ہے اور مجھ سے کہا گیا کہ قدرت اللّه کو خوشخبری دے دو کہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے ان کے ہاں بچہ ہو گا۔

ایک سال کے بعد قدرت اللّه کے بچہ تولد ہوا ۔حالانکہ ڈاکٹری اصول کے مطابق خونی نامناسب کی وجہ سے بچہ پیدا ہونے کق امکان بعیدازقیاس تھا ۔

لندن کے اس ڈاکٹر کا بیان ہے جس نے بچے کی ولادت کیلے آپریشن کیا تھا کہ میں مذہبی آدمی نہیں ہوں،  مشکل کے وقت مجھے خدا کی طرف رجوع کرنے کا خیال کبھی نہیں آیا تھا۔ معجزہ میرے لیے ایک بے معنی لفظ ہے چونکہ میں حقائق کی دنیا میں رہنے کا عادی ہوں ،دعا کے مفہوم سے میں آشنا بہیں۔ پتہ نہیں اس روز مجھے کیا ہوا جب میں ڈاکٹر عفت شہاب کے بےجان بچے کو شیشے کے مرتبان میں ڈال کر مسلسل چار گھنٹے اس کے پاس بیٹھا رہا ۔ان جانے میں ،میں نے انگلی پر انگلی رکھ کر صلیب کا نشان بنا لیا۔ میرے دل کی گہرائیوں سے ایک ان سنی ایک ان جانی آواز ابھری ،یا خدا اس بچے کو زندگی دے۔

چار گھنٹے میں یوں ہی بیٹھا رہا جس کی زندگی کی کوئی امید نہ تھی ۔میری انگلیاں صلیب بنی رہیں۔ وہی ان جانی آواز میرے دل کی گہرائیوں میں گونجتی رہی۔ پھر چار گھنٹے بعد جب پہلی مرتبہ بچے میں حرکت پیدا ہوئی تو پتہ نہیں کیوں میری آنکھیں شکر گزاری کے آنسووُں سے پُرنم ہوگئیں۔کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا شب بیداف عابد قدرت اللّه میں کیوں دلچسپی لے رہے تھے۔ پاکیزہ خواتین کو اعتکاف کیلے قدرت اللّه کا گھر کیوں دکھایا جا رہا تھا۔ دہرئیے ڈاکٹر قدرت اللّه کے بچے کیلے دعا کرنے پر مجبور تھے۔ قدرت اللّه کون ہے ،میرے سامنے ایک سوال آکھڑا ہو۔ پھر بھائی جان نے اس سوال پر گویا مہر ثبت کردی۔

بھائی جان میرے بھائی نہیں ایک بزرگ ہیں۔ ان میں چند ایک خصوصیات نمایاں ہیں۔ وہ بے حد خلیق ہیں ۔طبعیت میں بلا کا عجز ہے کم گو ہیں۔ نکتہ چینی سے اجتناب کرتے ہیں اور انہوں نے دوسروں کی بات میں کبھی دخل دیا۔ انہی خصوصیات کی بنا پر ہم بھائی جان کی عزت کرتے ہیں۔ بھائی جان کے قدرت اللّه سے مراسم نہ تھے۔ معمولی سا تعارف، خالی علیک سلیک۔

ایک روز بھائی جان کی موجودگی میں اشفاق احمد آگیا۔ آتے ہی اس قدرت کا تذکرہ چھیڑ دیا اور بے تکلفانہ قدرت کو برا بھلا کہنے لگا۔ بھائی جان کا منہ سرخ ہو گیا وہ اٹھ بیٹھے اور غیر معمولی جلال میں کہنے لگے مفتی صاحب آپ انہیں سمجھا دیجئے، بے شک یہ ان کے بے تکلف دوست ہیں لیکن ہمارے سامنے ان کے معتلق ایسی باتیں نہ کہا کریں۔ ہم برداشت نہیں کر سکتے یہ کہہ کر بھائی جان چلے گئے۔

اشفاق کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ یہ بھائی جان کو کیا ہوا۔ بھائی جان نے تو کبھی ایسی بات نہ کی تھی قدرت اللّه کون تھا جس کے بارے میں ایسی ویسی بات بھائی جان سن نہیں سکتے تھے۔ میرے لیے قدرت اللّه کے اسرار پر مہر ثبت ہوگئی۔ قدرت اللّه کیا ہے۔ قدرت اللّه کون ہے؟ ساری فضا سرگوشیوں سے بھر گئی ۔پھر قدرت اللّه ہالینڈ میں سفیر بن کر چلے گئے۔ بیورو میں میرا ایک اہم کار دوست صغیر ہے۔ صغیر کو قاضی صاحب سے عقیدت ہے ۔قاضی صاحب ایم ای ایس میں ملازم ہیں۔ ان کا واحد شغل اللّه اللّه کرنا ہےان کی پاکیزگی اور بے غرض خدمت خلق کی وجہ سے ان کے گھر پر سائلوں کا تانتا لگا رہتا ہے ۔صغیر نے کہا مفتی قاضی صاحب سے ملاوں ۔

قاضی صاحب کے کمرے میں جا بجا اللّه اور محمد کے کتبے لٹک رہے تھے ۔فرش پر تسبیحوں کا ڈھیر لگا تھا۔ درمیان میں ایک سادہ لوح دیہاتی بیٹھا تھا جس کے ماتھے پر نیکی اور عبادت کی محرابیں بنی ہوئی تھی۔

قاضی صاحب بڑے اخلاق سے ملے اور صغیر سے باتیں کرتے رہے ۔ان کی باتوں میں بڑا عجز تھا نہ جانے صغیر کو کیا سوجھی کہنے لگا۔ قاضی صاحب مفتی صاحب کا ایک دوست ملک سے باہر گیا ہوا ہے دیکھئے تو وہ کب واپس آئے گا۔

آپ کے دوست کا کیا نام ہے”؟ قاضی صاحب نے مجھ سے پوچھا۔ قدرت اللّه ۔میں نے جواب دیا۔ جان بوجھ کر میں نے قدرت اللّه کے نام سے شہاب حذف کر دیا۔ قاضی صاحب نے آنکھیں بند کر لیں۔ ان کی گردن لٹک گئی۔ کمرے میں خاموشی طاری ہوگئی۔ دفعتاً قاضی صاحب چونکے جیسے انہیں دھچکا لگا ہو۔ بڑی عاجزی سے بولے یہ تم نے کیا کیا۔بکری کو شیر کے سامنے ڈال دیا۔ صغیر جی میں تو ایک چھوٹا آدمی ہوں۔ بہت چھوٹا، چھوٹی چھوٹی خدمتیں کر سکتا ہوں۔ یہ آپ نے کیا کیا مجھ عاجز کو شیر کے سامنے ڈال دیا۔

کیا شیر سے ان کا مطلب قدرت اللّه تھا۔ کیا قدرت اللّه شیر ہے۔ قدرت اللّه میری نگاہوں کے سامنے آکھڑا ہوا اور فون کے چونگے میں منہ ڈال کر بولا، نہیں نہیں مہاراج میں تو لال رام لال بول رہا ہوں، لال رام لال۔

مفتی جی، بھائی جان غصے میں بولے ،ان کے معتلق ہم ایسی بات برداشت نہیں کر سکتے،یہ شخص دین اور دنیا دونوں لوٹ کر لے گیا* شور کوٹ کے بزرگ نے قہقہ مارا۔ قدرت اللّه کون ہے ،کون ہے ۔فضا سرگوشیوں سے بھری ہوئی تھی ۔میں بھائی جان کی طرف بھاگا میں نے کہا بھائی جان ایک بات بتا دیجئے ۔قدرت اللّه کون ہے؟ وہ مسکرائے پھر بولے* مفتی جی وہ آپ کے دوست ہیں انہی سے کیوں نہیں پوچھتے آپ*

پھر میں نے بڑی محنت سے خوشاب کے اس شب بیدار عابد ایڈووکیٹ ملک صاحب کا پتہ لگایا جس نے قدرت کو فرزند کی ولادت کی خبر تھی ۔لاہور میں ملک صاحب ایک ویران کوٹھی میں مقیم تھا۔ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ بیشتر اس کے کہ میں ان سے کچھ پوچھتا انہوں نے خود ہی قدرت کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ کہنے لگے۔ *سمجھ میں نہیں آتا ایک سال سے مدینہ منورہ سے شہاب صاحب کی ہالینڈ سے واپسی کی منظوری آچکی ہے پھر وہ کیوں ہالینڈ سے واپس آنے میں لعیت و لعل کر رہے ہیں۔ مدینے شریف سے منظوری آچکی ہےمیں نے کہا ملک صاحب ایک بات بتا دیجئے ۔قدرت اللّه کون ہے ۔میں نے پوچھا ملک صاحب مسکرانے لگے بولے ہمیں پوری طرح علم نہیں چلیئے آپ کو ایک بزرگ کے پاس لئیے چلتے ہیں۔ یہ بزرگ قدرت اللّه میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ جب بھی شہاب صاحب کے معتلق کسی کمیٹی یا کانفرنس میں کوئی مسلہ زیِر غور ہوتا ہے تو یہ بزرگ لازماً وہاں پہنچ جاتے ہیں اور شہاب صاحب کے حق میں فیصلہ ہونے کیلے پوری جدو جہد کرتے ہیں۔

میو ہسپتال کے سامنے ملک صاحب ایک گلی میں مڑ گئے گھوم پھر کر ایک مسجد میں داخل ہوئے ۔مسجد سے ملحقہ مزار پر کھڑے ہو کر مجھ سے کہنے لگے فاتحہ پڑھ لیجئے ۔

فاتحہ پڑھ کر ہم باہر نکلے۔ یہ اپنے وقت کے بہت بڑے بزرگ ہیں ملک صاحب نے کہا جب داتا صاحب لاہور میں داخل ہو رہے تھے تو ان کا جنازہ جا رہا تھا جب بھی لاہور آئیں ۔یہاں حاضری دیا کیجئے۔

ارے تو یہ تھے وہ بزرگ میں حیران رہ گیا لیکن یہ سب باتیں بے کار ہیں یہ سب دلائل بودے ہیں۔ میں خوامخواہ آپ کا وقت ضائع کر رہا ہوں۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ بات کہنا اور چیز ہے بات کا پہنچنا اور چیز ہے فوری نہیں کے کہنے سے بات کھل جاے ہم صرف بات کہہ سکتے ہیں۔ بات کھولنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ گزشتہ سقل سے میں نے چیخ چیخ کر بات کہی ہے اپنے دوستوں سے بات کہی ہے ۔قدرت کے عزیزوں سے کہی ہے ۔

سب میری باتوں کو سن کر مسکرا دیتے ہیں۔ اب میں نے جانا ہے کہ یہ بات کہنے کا کوئی فائدہ نہیں جب تک پہنچانے والے کو بات کھولنا منظور نہ ہو۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button