Samay Ka Bandhan

مانا نمانہ—سمے کا بندھن

مانا نمانہ
نمانہ کی والدہ خانم پر گھبراہٹ طاری تھی کہ کس طرح بیٹی سے عشتے کی بات کرے۔ ڈرتی تھی کہیں انکار نہ کر دے۔ وہ اپنی بیٹی کے ادلتے بدلتے موڈ سے خائف تھی۔ اس انتظار میں تھی کہ اچھے موڈ میں ہو تو بات کرے۔ بار بار چھوٹی انجنا کو بھیجتی “جا، انجنا۔ جا کر دیکھ تو۔ تیری باجی کیا کر رہی ہے؟”
خانم کی خالہ ذاد عنبرین نے جو عرصہ دراز سے نیروبی میں مقیم تھی اور جہاں ان کا کاروبار تھا، اپنے بیٹے سلمان کے لئے نمانہ کا رشتہ مانگا تھا۔ خط میں سلمان کی تصویر بھی بھیجی تھی۔ یہ بھی لکھا تھا کہ دو مہینے پہلے سلمان پاکستان آیا تھا۔ تلاش کے باوجود آپ کا گھر نہ ملا، ورنہ مل کر آتا۔
خانم بار بار سلمان کی تصویر دیکھتی، دعائیں مانگتی: اللہ کرے نمانہ کو پسند آ جائے۔ پھر انجنا سے کہتی “انجنا، تیری باجی کا موڈ کیسا ہے؟ جا کر دیکھ تو۔”
نمانہ کرسی پر بیٹھی میز پر پڑے ہوئے چائے کے پیالے کو گھور رہی تھی۔ دایاں پاوں چل رہا تھا، جیسے انڈا پھینٹتے ہوئے چمچہ چلتا ہے۔ بھنویں تنی ہوئی تھیں۔ پیشانی پر تیر کھدا ہوا تھا۔ آنکھیں کھلی تھیں پر دیکھ نہیں رہی تھیں۔ پتا نہیں وہ کہاں تھی۔ شاید کہیں بھی نہیں تھی۔
انجنا نے ایک نظر دیکھا اور لوٹ گئی۔ ظاہر تھا کہ نمانہ پر موڈ طاری ہے۔ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
نمانہ کی سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ خود سے کیا کرے۔ اس کی خواہش تھی کہ کچھ کرے۔ سیدھی سادی بات نہیں، کوئی انوکھی بات، جو پٹاخے کی طرح بھک سے اڑ جائے، اڑا دے، چونکا دے۔ کسی کو بھی، چاہے دوسروں کو، چاہے خود کو۔
یہ نہیں کہ نمانہ نے خود سے کچھ کیا نہ تھا۔ بہت کچھ کیا تھا۔ انوکھا۔ ان ہونا۔ حیران کن۔ کئی ایک پٹاخے چلائے تھے۔ پٹاخے سے اسے شکایت تھی کہ ایک بار چل کر ٹھس ہو جاتا ہے۔ چلے نہیں جاتا جیسے پہیہ چلے جاتا یے۔
نمانہ کی والدہ خانم پرانے زمانے کی خاتون تھی، سمجھدار تھی، سیانی تھی۔ لیکن جب سے بچے جوان ہوئے تھے، بے چاری کنفیوزڈ ہو کر رہ گئی تھی۔ جب بھی کوئی بات کرتی تو لڑکیاں بڑے پیار سے اسے بغل میں دبا لیتیں۔ کہتیں “امی، آپ اس بات میں دخل نہ دیں۔ آپ نہیں سمجھتیں۔” اس کے باوجود امی بات جاری رکھتیں تو نمانہ کانوں پر ہتھیلیاں رکھ لیتیی “امی، بور نہ کرو نا، پلیز امی۔” خانم کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ نوجوان بات بات پر بور کیوں ہو جاتے ہیں۔
انجنا سمجھانے لگتی تو نمانہ اسے اشارہ کر کے منع کر دیتی “ہٹاو، انجنا۔ امی نہیں سمجھیں گی۔ جو لوگ جینتے کی تڑپ سے محروم ہوں، بھڑک کر جلنے سے خائف ہوں، وہ بور کیسے ہوں گے بھلا۔ جو بور ہونے کی صلاحیت سے محروم ہوں، وہ اس بوریت کو کیسے سمجھیں گے۔”
نمانہ میں بور ہونے کی کیفیت اس زمانے سے شروع ہوئی تھی جب اس کے ذہن میں یہ خواہش ابھری تھی کہ کچھ کروں۔ کر دکھاوں کوئی نئی بات۔ ان سنی، جو چونکا دے، اور کچھ نہیں تو موم بتی کو دونوں دروں پر جلا کر بیٹھ جاوں۔
نمانہ ایک کھاتے پیتے گھر کی عام سی لڑکی تھی۔ شکل و صورت اچھی تھی۔ ایسی نہیں جسے خوبصورت کہا جا سکے۔ خدوخال خاصے چست تھے۔ بدن چھریرا، آنکھ میں چمک، ابھی اس چمک نے خصوصی رنگ اختیار نہیں کیا تھا۔ کبھی ذہانت، کبھی شرارت۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ سکول میں پڑھتی تھی۔ ابھی خود پر فیتے کناریاں نہیں لگاتی تھی۔ اس زمانے میں صرف ایک جذبہ طاری تھا کہ ہر وقت رومانی گیتوں کی گود میں بیٹھ کر جھولتی رہے۔ یہ کوئی خاص بات نہ تھی۔ ہمارے ہاں ہر لڑکی، جوانی کی اولین بیداری سے بھرپور انگڑائی تک، فلمی گیتوں کے جھولنے میں جھول جھول کر بڑی ہوتی ہے۔ شاید کھٹائی چاٹنے کی طرح عنفوان شباب کا یہ بھی ایک تقاضا ہو۔
مشکل یہ ہے کہ والدین نے کبھی عنفوان شباب کے حادثے کی طرف توجہ نہیں دی۔ اسے حادثہ نہیں سمجھا۔ اس آتش فشاں کے جاگنے کی طرف دھیان نہیں دیا۔ اس کایا پلٹ کو کایا پلٹ نہیں سمجھا، جس کے تحت ایک رینگتی ہوئی سنڈی تتلی بن جاتی ہے۔
نمانہ ان دنوں رینگتی ہوئی سنڈی تھی۔ تتلی بننے تک کئی مرحلوں سے گزری۔ سب سے پہلے رومانی گیتوں کی مدھم آنچ پر پکتی رہی۔ پکتی رہی اور پکنے سے پہلے ہی پک گئی۔ ان دنوں اس کے پاس دو ٹرانزسٹر تھے۔ ایک درہانے دھرا رہتا، دوسرا جیبی۔ لیٹتی تو سرہانے دھرا لوریاں دیتا۔ یہ لوریاں بھی کیا لوریاں ہوتی ہیں۔ نہ سونے دیتی ہیں، نہ جاگنے دیتی ہیں۔ سوئے سوئے جاگنا، جاگے جاگے سوئے رہنا۔ باتھ میں جاتی تو سامنے دھرا ہوتا۔ سکول میں جاتی تو جیب سے گیتوں کے بول تھپتھپاتے۔
کتاب پڑھتے ہوئے بھی “وحشتوں کا ساتھی ہو” کی آرزو اردگرد منڈلاتی۔ اس پر ایک نئی مشکل پیدا ہو جاتی۔ وحشتیں ہوں تو ان کے ساتھی کی آرزو کرو۔ پہلے وحشتیں پیدا کرو، اور وحشتیں پیدا کرنا کوئی آسان کام نہیں۔
جب ہر وقت آپ بلما کو آ آ کرتے رہیں۔ اس کے انتظار میں بتی بال کے ہنیرے اوتے رکھیں۔ اس کی خیالی چٹھی کو گھٹ گھٹ جپھیاں پاتے رہیں۔ تصور میں مل جائے تو آپ کو زندگی مل جائے۔ اور پھر آپ اس پر “ہو ہو گئی قربان” ہوتے رہیں۔ اسے اٹھنے نہ دیں۔ یونہی پہلو میں بیٹھے رہو۔ اور ظالم سماج کو کوستے رہیں کو وہڑے میں ویری بن کر وسدے ہیں اور پائل کی جھنکار کو پیرن بنا دیتے ہیں۔ ان حالت میں بے چارہ پھل پکنے سے پہلے رسنے نہ لگے تو کیا کرے۔
پھر وہ کالج میں چلی گئی، اور خود پر گوٹے کناریاں سجانے لگی۔
اس رومانی دور میں چار ایک لڑکے نمانہ کے قریب آئے۔ دو تو کزن تھے، جو دور کھڑے ہو کر کبوتر سی آنکھیں بنا کر دیکھتے رہتے۔ قریب آتے تو جی جی کرنے لگتے۔ بھلا جی جی کرنے والے بھی کسی گنتی شمار میں آتے ہیں کیا۔ دو ایک چمکیلے تھے، مرچیلے تھے۔ لیکن جرات سے خالی تھے۔ یہ کھیل تو جرات کا ہے۔ نمک مرچ بھلا کیا کر سکتے ہیں۔ البتہ پڑوسی جاندار تھا۔ اس میں گٹس تھے۔ آنکھ سے شرارے اڑتے تھے۔ آنکھیں دیکھتی کم کم تھیں، چھیڑتی ذیادہ تھیں۔ چیونٹیوں کی طرح چمٹ جاتیں۔ پنجے گاڑ دیتیں۔
مشکل یہ تھی کہ پڑوسی سامنے آتا، متبسم نگاہوں کی پھلجھڑی چلاتا اور چلا جاتا۔ رکتا نہ تھا۔ لڑکی کا المیہ ہے کہ جو رک جائے، وہ توجہ کے لائق نہیں رہتا۔ جو شرارہ چھوڑ کر چلا جائے، وہ ذہن میں اٹک جاتا ہے۔ سنجیدہ اور مخلص جھڑ جاتا ہے۔ تفریحی کانٹے کی طرح چبھ جاتا ہے۔ اگر پڑوسی کچھ دیر اور قائم رہ جاتا تو شاید وہ نمانہ سے مانا بن جاتی۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ پڑوسی گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ نمانہ کو مرز نہ ملا۔
مرکز نہ ملے تو خود مرکز بننے کی آرزو ابھرتی ہے۔
کالج جاتے ہوئے وہ اس امید پر حرکت کی چنگاریاں چھوڑتی رہی کہ راہ گیر دیکھیں، چونکیں، لوگ دیکھتے، چونکتے۔ نمانہ کے دل میں خوشی کی رو دوڑ جاتی۔ اطمینان سا ہو جاتا کہ سب اچھا ہے۔ چونکانا اس کا مشغلہ بن گیا۔
کالج میں نمانہ نے چار ایک شوخ لڑکیوں کا ایک ٹولہ بنا لیا جس کا مسلک چونکانا تھا۔ استانیوں کو سہیلیوں کو، کلاس فیلوز کو۔ یہ ٹولا سارے کالج میں مشہور تھا۔ ان کی جرات پر لڑکیاں تالیاں بجاتیں۔ چپ چپیتیوں کے دلوں میں لڈو پھوٹتے۔ استانیاں ان کی باتوں کو ان سنا کرنے کی آڑ میں غور سے سنتیں، سراہتیں، پرانی یادوں میں کھو جاتیں۔ پتا نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے۔ لیکن ایسا ہوتا ہے۔ جس کا مقصد چونکانا بن جائے وہ خود اثر سے بھیگنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہے۔ جو محروم ہو جائے وہ سوکھ کر کاٹھ بن جاتی ہے۔ دقت یہ ہے کی عورت کی غایت بھیگنا ہے، بھگو دینا ہے، سوکھنا نہیں۔ سرو کی طرح تن کر کھڑے رہنا نہیں۔ بیل کی طرح خود کو حوالے کر دینا ہے۔
نمانہ آہستہ آہستہ کاٹھ بنتی گئی۔ جوں جوں بنتی گئی توں توں رومان کا شغل بے معنی ہوتا گیا۔ حتی کہ بالکل دل سے اتر گیا۔ خوابوں کا دولہا پس پشت پڑ گیا۔ بنگلہ اور کار آگے آ کھڑے ہوئے۔
یونیورسٹی میں چونکانے کے کوائف بدل گئے۔ وہاں نہ تو رنگین حرکات کام آتی تھیں نہ ؟؟؟؟ ڈو۔ نہ گریس فل پوز، نہ نخرانہ بات۔ لوگ ان باتوں کو اپریشیٹ ضرور کرتے تھے چونکتے نہ تھے۔ چونکتے بھی تو چونک کو ابسارب کر لیتے۔ پی جاتے کہ اظہار نہ ہو پائے۔
نمانہ کی نظر میں یونیورسٹی کے بیشتر لڑکے کراوڈ کی حیثیت رکھتے تھے۔ صرف ایک دو ان کوئیسچن تھے۔ دو ایک تو خالص ڈرائنگ رومز تھے، جیسے ہینڈ باکس سے سیدھے یونیورسٹی آ گئے ہوں۔ ان کے پاس یا تو لباس تھے اور یا مینرز۔ دونوں مخملی تھے۔ شخصیت کا پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ ہے بھی یا نہیں۔
چار ایک بھڑکیلے تھے۔ شو مارنے کے دلدادہ۔ شوروم بنا سجا۔ اندر دکان خالی۔ چار ایک کتابی تھے۔ رٹے رٹائے جملے بولتے۔ حوالے دیتے۔ امتحانوں میں پوزیشن کے دلدادہ۔ ایک انٹیکچوئیل تھا۔ سارا دن لائبریری میں گھسا رہتا۔ بات کرتا تو کتاب کی بو آتی۔ لڑکیوں کی طرف کبھی توجہ نہ دی تھی۔ دیتا بھی تو تحقیقی قسم کی۔ انہیں شخصیت کے لحاظ سے کلاسی فائی کرتا رہتا۔ اس نے کلاس کی ہر لڑکی کو لیبل کر رکھا تھا۔ رعنا کلوپیٹرا تھی۔ جمیلہ پینگوئین۔ روزی گگنگ ڈال۔ عاصمہ امیزن۔ پیٹرا فملی ہیروئن اور نمانہ کوبرا۔
نمانہ کو پتا چلا کہ اسے کوبرا کا نام دیا گیا ہے تو اس کا ہڈ اور بھی تن گیا۔ گردن بھی کاٹھ بن گئی۔ اس پر رضا نے اسے طعنہ دیا۔ مونچھوں پر تاو دیتے ہوئے بولا “ہم نے کئی ایک کوبروں کو رام کر کے بین پر لپیٹ لیا۔”
“پلاسٹک کے ہوں گے” نمانہ بولی۔
“زیر کی پوٹلی نکالنا جانتے ہیں ہم!”
“پھر آںکھ کھل جاتی ہے” وہ ہنسی۔
رضا کو غصہ آ گیا، اس لئے کہ بہت سے لڑکے سن رہے تھے، ہنس رہے تھے۔ لاجواب ہو جاو تو غصہ تو آتا ہی ہے۔
“ہم سے بچ کر رہو، محترمہ” اس نے گویا نعرہ لگایا۔
“رضا صاحب” وہ بولی “آپ تو صرف نعرے لگانا جانتے ہیں، یا بسوں کو آگ لگانا۔ میں بس نہیں ہوں۔”
تمام لڑکے قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔
رضا سٹوڈنٹ لیڈر تھا۔ اس کے ساتھ آٹھ دس حواری تھے۔ سب کے سب شوشے۔ پروفیسروں کے سامنے التزاما مونچھ مروڑ کر بات کرتے۔ رضا گروپ سے سبھی ڈرتے تھے۔ لیکن نمانہ نے کبھی درخوراعتنا نہ سمجھا تھا۔
یونییورسٹی کے دور میں صرف ایک واقعہ ہوا تھا، جس نے نمانہ کو التھ پلتھ کر کے رکھ دیا تھا۔ کوشش کے باوجود وہ اسے بھول نہ سکی تھی۔ جب بھی یاد آ جاتا تو اس کی انا کو ازسرنو ٹھیس لگتی۔ اس یاد میں لذت کا عنصر بھی تھا، جسے وہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھی۔ بظاہر وہ ایک معمولی سا واقعہ تھا لیکن جو زندگی بھر دوسروں کو چونکاتی رہی ہو، اسے کوئی چونکا دے۔ اس کی انا کو تہس نہس کر کے رکھ دے، تو بھولنا مشکل ہو جاتا ہے۔
دو ایک ماہ ہوئے ہوں گے، اس روز وہ لائبریری میں بیٹھی نوٹس لیتی رہی۔ شام پڑ گئی تو اٹھی۔ بس کی روانگی میں چالیس منٹ باقی تھے۔ سوچا، چلو کنٹین سے ایک پیالی چائے پیتی چلوں۔
کینٹین خالی پڑی تھی۔ کوئی موجود نہ تھا۔ ایک میز پر چائے کا سیٹ دھرا تھا۔ پلیٹ میں چار ایک بسکٹ تھے۔ اس نے ٹی پاٹ کو ہاتھ لگایا۔ بھری ہوئی اور گرم تھی۔
عین اس وقت ایک تیکھا سا، تیز سا، نوجوان داخل ہوا۔ بے تکلفی سے بولا “بہت اچھا ہوا آپ آ گئیں۔ میرے لئے اکیلے چائے پینا مشکل ہو رہا تھا۔ اکیلے چائے پینے کی عادت نہیں۔ بیٹھئیے، چائے بنائیے۔ ایک پیالی میرے لئے بھی بنا دیجئیے۔”
نمانہ کو اس بے تکلفی پر بڑا غصہ آیا۔ بات ان سنی کر کے مڑی اور کینٹین کے لڑکے کو آوازیں دینے لگی “چھوٹے۔”
“لڑکا پیٹیز لینے گیا ہے۔ ابھی آ جائے گا” نوجوان بولا “جب تک آپ چائے بنائیے۔”
نمانہ نے غصے بھری نگاہ نوجوان پر ڈالی اور جانے کے لئے مڑی۔
نوجوان نے لپک کر اس کا راستہ روک لیا۔ بولا “دیکھئیے، اگر آپ یوں نہیں مانیں گی تو میں بانہوں میں اٹھا کر کرسی پر بٹھا دوں گا۔”
نمانہ کی آنکھوں سے شعلوں نکلنے لگے “گٹ اسائیڈ” وہ چلائی۔ نواجوان نے اس کی کلائی پکڑ کر جھٹکا دے کر کرسی پر بٹھا دیا۔ نمانہ چیخی چلائی تو وہ بولا “یہاں آپ کی مدد کے لئے کوئی نہیں آئے گا۔ چپ چاپ چائے بنائیے۔” یہ کہہ کر وہ اس کے مقابل کی کرسی پر جا بیٹھا۔ نمانہ چپ چاپ غصے میں ابلتی ہوئی چائے بنانے لگی۔
“آپ ڈرتی کیوں ہیں” وہ بولا “آپ لڈو نہیں کہ کوئی کھا جائے گا۔ اور مجھے لڈو کھانے کا شوق نہیں۔ میں نے تو صرف یہ ریکوسٹ کی تھی کہ میرے ساتھ بیٹھ کر ایک پیالی چائے پی لیں۔ اس سے میرا کوئی مقصد نہ تھا۔ معمولی سی کرٹسی۔ تھینک یو” اس نے چائے کی پیالی پکڑ کر کہا۔
کچھ دیر تک دونوں چپ چاپ چائے پیتے رہے۔
“آپ کا غصہ ابھی تک نہیں اترا۔” وہ بولا “میری ذیادتی پر آپ خود کو سزا کیوں دے رہی ہیں؟ شاید آپ سوچ رہی ہیں کہ اتھارٹیز سے میری شکایت کریں گی۔ بے کار ہے۔ میں یونیورسٹی کا نہیں ہوں۔ باہر سے آیا ہوں۔ یہاں ایک دوست سے ملنے آیا تھا۔ وہ ملا نہیں تو یہاں چائے پینے آ گیا” وہ رک گیا۔
“پتا نہیں کیوں” وہ بولا “یہاں ہر لڑکی خود کو ہر وقت لڑکی سمجھتی ہے۔ کبھی بھول بھی جایا کریں کہ آپ لڑکی ہیں۔ اس قدر سیکس کانشس ہونا اچھا نہیں” وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا “اب آپ جا سکتی ہیں۔ تھینک یو سو مچ۔ خدا حافظ۔”
نمانہ گھر پہنچی تو یوں تنی ہوئی تھی جیسے سارنگی کے تار۔ تناو ذرا کم ہوتا تو لذت کی ایک رو جسم میں دوڑ جاتی۔ اس پر احتجاج پیدا ہوتا اور وہ پھر سے تن جاتی۔ تنے جاتی تھی۔ کنپٹیاں پھر سے بجنے لگتیں۔ اس وقت اس کے دل میں ایک خواہش تھی: انتقام، انتقام۔ پھر آہستہ آہستہ وقت گزرنے لگا۔ شدت کم ہوتی گئی۔ لیکن جب بھی چائے کی پیالی سامنے آتی تو یاد تازہ ہو جاتی۔
نمانہ کی والدہ ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوئی۔ ایک نظر نمانہ کی طرف دیکھا۔ وہ بیٹھی چائے کی پیالی کو گھور رہی تھی۔ نگاہیں چڑھی ہوئی تھیں۔ پاوں چل رہا تھا۔
“بیٹی” وہ بولی “مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنا ہے” نمانہ سنبھل کر بیٹھ گئی۔ اماں نے کہا “بیٹی، تیرے لئے ایک رشتہ آیا ہے۔ تو منظور کر یا نہ کر، تیری مرضی۔ ہم دخل نہیں دیں گے۔ یہ لڑکے کی تصویر ہے۔” اس نے تصویر نمانہ کے سامنے رکھ دی۔
تصویر کو دیکھ کر نمانہ چونکی۔ آنکھیں غصے سے ابل آئیں۔ ان جانے میں پیر چلایا یا شاید انگڑائی لی ہو۔ چائے کی پیالی گر کر چور چور ہو گئی۔
نوٹ:
قارئین کرام، نمانہ کے کردار اور واقعات کی روشنی میں آپ فیصلہ کریں کہ نمانہ نے کیا فیصلہ کیا؟ ہاں یا نہ؟۔۔۔۔ کیا جذبہ انتقام جیت گیا، یا وہ دبی دبی خوشی جسے اس نے کبھی ابھرنے نہ دیا تھا؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بظاہر انتقام درپردہ خوشی۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button