Okhay Olray

ممتاز مفتی سوا لاکھ کا ہاتھی از اشفاق احمد

اردو ٹیکسٹ: رضوان شاہ

مفتی پر کچھ لکھتے وقت دراصل مجھے دو مشکلوں کا سامنا ہے۔ ایک تو یہ کہ میں نے کبھی کسی کا خاکہ نہیں لکھا۔ خاکہ اڑایا ضرور ہے مگر لکھنے کے معاملے میں نا آشنائے محض ہوں۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ ادب کے ناقدوں نے ہر صنف ادب کے بارے میں کچھ پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور آپ اس لیگل فریم سے باہر نہیں نکل سکتے۔ خاکہ نگار کے لئے یہ پابندی عائد ہے کہ خاکہ لکھتے وقت خاکہ نگار اپنے خاکوانی کی مکمل مدح سرائی نہیں کر سکتا اور اس کو ایک اچھے اعلی اور معیاری شخص کے طور پرپیش نہیں کر سکتا۔ اس کی شخصیت میں تھوڑی بہت برائی شامل کرنی پڑے گی خواہ وہ مانگے کی برائی ہی کیوں نہ ہو۔ کسی شخص کو پورے کا پورا بدمعاش، عیار، بے ایمان اور ظالم پیش کرنے کی البتی پوری آذادی ہے۔ ابتدائے ایام میں میں نے دو دوستوں کے تین خاکے لکھے تھے لیکن ایڈیٹر نے انہیں اس وجہ سے ناقابل اشاعت قرار دے کر واپس بھیج دیا کہ ان میں ساری اچھی اچھی باتیں ہی تھیں اور اچھی اچھی باتیں پڑھ  کر قارئین کے بے مزہ ہونے کا اندیشہ تھا۔ ساتھ ہی اس سے میری شہرت کو گزند پہنچنے کا احتمال بھی تھا۔ اس لئے ان کی اشاعت روک دی گئی۔

دوسری پابندی خاکہ نویس پر یہ لگائی گئی ہے کہ وہ خاکوانی کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنا زکر بالکل نہ کرے اور ہر گز یہ ظاہر نہ ہونے دے کہ وہ خاکوانی کو جانتا ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو اس پر یہ حد قائم ہو جائے گی کہ اس نے اپنے ممدوح کی شہرت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر خود کو بلند کرنے کی کوشش کی ہے اور ممدوح کو بطور ایک لیور کے استعمال کیا ہے۔ یہ دوسری پابندی جو سراسر گھاٹے کا سودا ہے، میں پھر بھی برداشت کرنے کو تیار ہوں لیکن پہلی پابندی کے ساتھ میری مصالحت ذرا مشکل ہے۔  میں پیر پرست اور لیڈر پرست قسم کا انسان ہوں۔ جس کی محبت میں ڈوبا پورے کا پورا ڈوبا۔ جب بیزاری پیدا ہوئی تو ٹوپی سوٹی لے کر باہر نکل گیا۔ یہ مجھ سے نہیں ہوتا کہ ہاں اچھے بھی ہیں اور انسانی کمزوریوں سے پر بھی ہیں۔ لمبے ہیں اور گٹھے بھی۔ راست گو ہیں پھر بھی دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں۔ رنگت گوری ہے لیکن جلد کالی ہے۔ بابو گوپی ناتھ بھی ہیں کالو بھنگی بھی۔ معافی چاہتا ہوں مجھ سے گرے پینٹ نہیں ہوتا۔

ممتاز مفتی ایک ایسا ہمدرد، محبتی، انسان دوست اور خدائی خدمتگار قسم کا انسان ہے کہ بالآخر آدمی اس کی محبت سے تنگ آ کر بھاگ جاتا ہے، ظالم زمانے کی آغوش میں پناہ ڈھونڈتا ہے اور وہاں بیٹھ کر مفتی پر روڑے پھینکتا ہے جن میں سے کوئی بھی اس کو نہیں لگتا۔ وہ ان روڑوں کو جمع کر کے اپنے رویے کی کرم پیک سے ایسا عرق متال جنتر کرتا ہے کہ جو اس روڑا پھینکنے والے کو دن میں تین مرتبہ پینا پڑتا ہے اور عمر کے آخری حصے تک اس عرق کے سہارے جینا پڑتا ہے۔ آپ اس کے دوست رہیں دشمن مان جائیں، تعلق رکھیں، تعلق توڑ لیں، زندہ رہیں، فوت ہو جائیں، ممتاز مفتی آپ کے آس پاس ہی رہتا ہے۔ اصل میں مفتی کے لئے ہر موجود اور ناموجود ایک معجزہ ہے اور اس کے نزدیک ناموجود، موجود سے قوی تر ہے اور معجزہ حقیقت سے ذیادہ پائیدار اور قابل اعتماد ہے اور نامعلوم اور ناشناخت کا عمل معلوم کے علم سے وسیع تر اور درخشندہ تر ہے۔ اب آُپ خود ہی بتائیے کہ ایسی سوچ والے انسان کے ساتھ آپ کہاں تک چل سکتے ہیں اور ایسی سوچ کا انسان آپ کو بیچ منجدھار میں چھوڑ بھی کیسے سکتا ہے۔ ممتاز مفتی سے دوستی تو آسانی کے ساتھ لگائی جا سکتی ہے، لیکن اس کو نبھانا بہت مشکل ہے کہ یہ روایت کا بندہ نہیں، بندھی ٹکی ریتوں کو نہیں مانتا۔ پرلوک ریت کے گھروندے میں رہتا ہے اور محکمات کے آگے دست بستہ کھڑا ہے۔ مجھ پر اور میرے بال بچوں پر اور میرے گھرانے پر ممتاز مفتی کے بڑے احسان ہیں۔ ہم زندگی کے کسی بھی چلن میں بے راہ ہوئے یہ بھاگ کر ہمارے لئے ٹیکسی لے آیا۔ ہم نے بھولے سے کبھی کوئی بھلائی کا راستہ اختیارکیا ممتاز مفتی کھڑانویں پہن کر منڈل ہاتھ میں لے ہمارے ساتھ چل پڑا کہ راستے میں بچوں کو کسی چیز کی ضرورت ہو گی اور بچوں کے باپ کو چلنے میں دقت ہو گی تو باپ کے لئے تو دری بچھا دوں گا اور بچوں کو قریب سے ناشتہ کرا کے لے آوں گا۔ رہی بانو قدسیہ تو اس کو اڑتی چڑیا کے پر گن کر بتلا دوں گا کہ ایک طرف تیرہ ہیں اور دوسری طرف اکیس اور یہی وجہ ہے کہ اڑتی ہوئی چڑیا جھپ کھاتی ہے اور جب جھپ کھاتی ہے تو شکرے کی پکڑ میں آ جاتی ہے تو بانو قدسیہ اس پر ڈرامہ لکھتی ہے اور جب اخبار چھپتا ہے  تو اس میں آدھے صفحے کا مضمون ہوتا ہے:

Morbid World of Bano Qudsia

اس مضمون کو پڑھ کر مفتی پہلے ہنستا ہے اور پھر روتا ہے۔ ہنستا اس لئے کہ جاہل تمثیل نگاروں کے ساتھ یہی ہونا چاہئیے اور روتا اس لئے ہے کہ جاہل نقاد کو اصل بات سمجھ میں نہیں آئی اور وہ کمخواب کے اس ٹکڑے کو لاٹھے کے گز سے ناپ گیا۔

مفتی کو اپنے ملک کی ہر حکومت سے بے پناہ محبت ہے اور وہ اس  کی صحت اور سلامتی کی طویل دعائیں مانگا کرتا ہے۔ اس کے نزدیک حکومت کو پسند کرنے کی وجہ صرف ایک ہے کہ ہر پاکستانی حکومت ہر ملک اور ہر مقام پر اور ہر ادارے سے بلا استثنی قرض لیتی ہے اور دبا کے لیتی ہے اور بڑی شریفانہ زندگی بسر کرتی ہے۔ اپنی قرضہ لینے والی حکومتوں سے متاثر ہو کر اس نے ایک انوکھا فارمولا وضع کر رکھا ہے جس پر شاید خود تو گامزن نہیں لیکن دوسروں کو اس پر عمل کرتے دیکھنے کا دل سے متمنی ہے۔ مفتی کی ہم سب کو ایک ہی نصیحت ہے کہ ہمیشہ اپنی آمدنی کے اندر رہ کر زندگی بسر کرو خواہ اس کے لئے تم کو قرض لے کر ہی ایسا کیوں نہ کرنا پڑے۔

اگر آُپ کو کبھی اس کی خوابگاہ میں جانے کا اتفاق ہو تو آپ دیکھیں گے کہ مفتی کے پلنگ کے نیچے طرح طرح کے ڈبے، صندوقچیاں، سوٹ کیس، اٹاچی اور ڈھکنے والی ٹوکریاں انتہائی بد نظمی کی حالت میں بڑے سلیقے کے ساتھ رکھی ہوتی ہیں۔ آُپ سے باتیں کرتے کرتے وہ اپنے پلنگ پر لیٹا لیٹا، ادھ کھلے چاقو کی طرح پلنگ کے نیچے اس طرح چلا جائے گا کہ چاقو کا دستہ پلنگ پر رہے گا اور پھل نیچے اتر کر پھرولا پھرولی شروع کر دے گا۔ آُپ دستے سے باتیں کر رہے ہیں اور دستہ باقاعدگی سے جواب بھی دے رہا ہے لیکن نیچے کی تحقیق و تفشیش گہرے انہماک کے ساتھ ساتھ جاری ہے۔ دس پندرہ منٹ کی کدوکاوش کے بعد وہ مطلوبہ چیز نکال کر آپ کے سامنے پیش کر دے گا اور چاقو بستر پر بند ہو کر اوپر کمبل کھینچ لے گا۔ مطلوبہ چیزوں میں عام طور پر آپ کے بچوں کے لئے میٹھی گولیاں، آپ کی بیوے کے ٹوٹے ہوئے ناخن کے لئے نیک کٹر، آپ کے ملازم کے لئے عطر حنا کی پرانی شیشی کا کارک اور خود آپ کے لئے وہ چٹھی ہوتی ہے جو آپ نے قیام پاکستان سے تین سال قبل بٹھنڈے کے ریلوے اسٹیشن سے اسے قصور کے پتہ پر لکھی تھی اور جس پر جارج ششم کی ایک پیسہ کم وہ ٹکٹ لگی تھی جس نے اس چٹھی کو دوپیسے کا بیرنگ کر دیا تھا۔ اس خط میں آپ نے وہ جھک ماری تھی کہ اگر آپ کے بیٹوں پوتوں کو اب پتا چل جائے تو وہ آپ کو سفید بلاوں سمیت گھر سے نکال دیں اور اپنے نان و نفقہ سے عاق کر دیں۔ اب چٹھی آپ کے ہاتھ میں ہے  اور چاقو دوسری طرف منہ کر کے لیٹا ہوا ہے۔ کاغذ پر آپ کی تحریر موجود ہے اور چٹھی کی یہ ہئیت ہے کہ نہ توڑنی نہ مروڑنی نہ پھینکی نہ چھپانوی نہ سوختنی نہ فروختنی۔

مفتی کے مرد دوستوں اور خواتین دوستوں کے اپنے اپنے الگ تجربات ہیں اور دونوں نے ایک دوسرے سے الگ اور مختلف النوع نتائج اخذ کر رکھے ہیں۔ عورتیں مفتی جی کوایک محبوب صفت، اکھڑ، منہ پھٹ، پلپلا اور جھینپو فادر فگر سمجھتی ہیں۔ مرد انہیں بانکا، چھبیلا، دل باز، پرگو، غم ساز، درد مند، شفیق اور محبتی اماں وڈی سمجھتے ہیں۔ لیکن بہت کم لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اس بڑے قالب میں تاروں کے چھاوں تلے، آسمانوں کے فرشتے اماں وڈھی اور فادر فگر کا نکاح پڑھا چکے ہیں اور دونوں بابا بابی ممتاز مفتی کے وجود کی سوئس کاٹیج میں بڑی پرامن زندگی گزار رہے ہیں۔

محبت کرنے والے لوگوں  کی زندگی کے کئی پہلو بڑے خطرناک ہوتے ہیں اور ان کی میگنیٹک فیلڈ میں آ جانے سے بڑے زور کا دھماکہ ہوتا ہے لیکن ہماری اماں وڈی کی محبتی زندگی کا صرف ایک پہلو ہی خطرناک ہے۔ اگر اس میں سے آپ سبھاو کے ساتھ گزر گئے تو پھر ساتوں خیریں ہیں اور اگر یہاں رک گئے تو پھر اتنے زور کا دھماکہ ہو گا کہ آپ کی نظروں کے سامنے آپ کے چیتھڑے اڑ جائیں گے اور کمیٹی کے پرانے کاغذوں میں صرف آپ کا نام ہی رہ جائے گا۔ اگر آپ پہلی مرتبہ ممتاز مفتی سے ملنے جا رہے ہیں تو آپ کو اپنے ساتھ کوئی جسمانی عارضہ لے کر جانا ہو گا اور اگر آپ آخری مرتبہ ان سے سروڈھنواں بیر لے کرلوٹ رہے ہیں تو بھی آپ کو اپنی بیماری کے لئے ان سے ہومیو پیتھک کی پڑیا لے کر لوٹنا ہو گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ مفتی جی سے مل کر آ رہے ہیں اور آپ کی جیب میں ہومیو پیتھک گولیوں کی شیشی نہیں ہے۔ مسعود، عمر، عماد اور اعظمی کی مفتی سے چالیس سالہ پرانی دوستی ہے ان سب نے مفتی کی خوشنودی کے لئے کوئی نہ کوئی بیماری پال رکی ہے۔ جس کی تفصیل جاتے ہی بیان کرنا مفتی سے محبت کے قرینوں کا پہلا قرینہ ہے۔ مسعود چونکہ ہم سب سے ذیادہ ذہین، تیز فہم اور پیش بین ہے اس لئے وہ گھر سے ہی کوئی بیماری سوچ کر چلتا ہے۔ عمر بے حد سادہ لوح، معصوم اور گھامڑ ہے اس لئے اس کو مفتی کے دروازے پر پہنچ کر یاد آتا ہے کہ اس کے پاس تو پیشکش کے قابل کوئی بیماری ہی نہیں۔ اس لئے گھنٹی بجانے سے پہلے اس کے ہاتھ پاوں پھول جاتے ہیں۔ پھر وہ ہم سب کی منتیں کرتا ہے، واسطے ڈالتا ہے اور دروازے کے سامنے بازو تان کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ جب تک مجھے کوئی بیماری نہیں کرو گے اور اسے مجھے نہیں سمجھاو گے، میں تم کو اندر جانے نہیں دوں گا۔ مسعود کہتا ہے۔ یار تم اس سے کہہ دینا کہ پیشاپ رک رک کر آتا ہے۔ جلن بھی ہوتی ہے اور کبھی کبھی ٹیس بھی ہوتی ہے۔ عمر پریشان ہوتا ہے کہ اگر اس نے پوچھ لیا ٹیس کس قسم کی ہوتی ہے تو میں کیا جواب دوں گا۔ مجھے تو کبھی ٹیس اٹھی ہی نہیں۔ اعظمی کہتا ہے کہ شرم کرو یار۔ کیا جاتے ہی بول و براز کی باتیں شروع کر دو گے۔ اچھا لگے گا بھلا۔ دیکھو عمر تم اس سے کوئی سادی سی بات کر دینا کوئی سیدھی سی بیماری۔ عماد کہتا ہے۔ سیدھی سی بیماری سے وہ ناراض ہو جائے گا اور اس کو جوتے مار کر نکال دے گا۔ تم یہ رک رک کر آنے والے پیشاپ کا ہی زکر کرنا۔ اعظمی کہتا ہے۔ کان کی تکلیف۔ بھائی کان کی۔ اور مسعود آغے بڑگ ک گھنٹی بجا دیتا ہے۔ سب دوستوں کو اس طرح ایک ساتھ باجماعت آتے دیکھ کر مفتی کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور وہ سب کے لئے پان لگانے بیٹھ جاتا ہے۔ مسعود اپنی بیماری کی تفصیلات پیش کرتا ہے اور اس کو دوائی دینے کا وعدہ ہو جاتا ہے۔ عمار اپنے عارضے میں بڑھوتری کا زکر کرتا ہے۔ اس کو بتا جاتا ہے کہ ابھی تین دن تک وہی دوائی کھاو۔ اعظمی عینک اتار کر اپنی آنکھیں دکھاتا ہے۔ مفتی کہتا ہے پان لگا کر روشنی میں دیکھوں گا۔ اب عمر کے ہاتھ پاوں پھول رہے ہیں اور خوف سے رعشہ طاری ہے۔ ہکلا کر کہتا ہے۔ مفتی میرے کان میں درد ہے اور درد کی وجہ سے سر پھٹ رہا ہے۔ اور کان میں ٹیسیں اٹھ رہی ہیں۔ خدا کے لئے کوئی ایسی دوا دو کہ افاقہ ہو جائے ورنہ میں تو جلد اس دنیا سے رخصت ہو جاوں گا۔ مفتی بڑے غور سے اس کی بات سنتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ دیکھو اس نے کیسی بیماری لگوا لی ہے۔ وہ اس سے پوچھتا ہے کہ درد کب ذیادہ ہوتا ہے رات کو یا دن کو یا پھر ہر وقت درد رہتا ہے۔ مفتی کان میں جھانکتا ہے اور اچھی طرح معائنی کرنے کے بعد اس سے اظہار ہمدردی کرتا ہوا دواوں کی الماری کھول کر ایک شیشی اٹھا کر اسے دیتا ہے کہ یہ دن میں چار مرتبہ چار چار گولی کھانی ہے لان کو کھینچنے سے پرہیز کرنا ہے اور اسے فارغ کر دیتا ہے۔ دوسرے دوست عمر کی ذہانت پر عش عش کرتے ہیں اور اسے شاباش دیتے ہیں کہ کیا کمال کا نقشہ کھینچا ہے مفتی کی تمام ذہانے کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

مفتی دراصل حزب اقتدار کا بندہ ہے۔ نانگ پھانک، بے سروسامان، بے ملک و بے ثروت ہونے کے باوجود ہر قسم کی حزب مخالف کو دعوت کلوخ زنی دیتا رہتا ہے۔ جب تک کوئی مفتی کو طعنہ نہ دے، چونڈی نہ کاٹے، شاٹ نہ مارے، دھکا نہ دے یہ مضمحل اور بیمار بیمار سا رہتا ہے اسی لئے اس کے سارے دوست اور جگری یار نہ ماننے والے لوگ ہیں۔ جس دن آُپ بدقسمتی سے اس کے ہم خیال اور ہم فکر ہو گئے۔ یہ سالم ٹیکسی لے کر خود آپ کو آپ کر گھر چھوڑ آئے گا اور تیسرے دن دارے دوستوں کو اپنے گھر سوئم پر جمع کر کے آپ کی آخری فاتحہ کر دے گا۔ مجھ پر اس نے نو مرتبہ فاتحہ کیا اور ایک مرتبہ میرے چہلم کا اہتمام بھی کیا لیکن میں اس کے حزب اختلاف میں شامل ہو کر پھر اس کا گہرا دوست بن گیا۔ اکثر کہا کرتا ہے کہ میری زندگی کے پہلے پنتالیس سال بڑی بے کیفی اور بے لذتی میں گزرے اور میں نے یہ سارا عرصہ مایوسی، خواری، پریشانی اور درد مندی میں گزارا۔ پھر خدا کے فضل و کرم سے، پاکستان بننے کے چند سال پہلے، رجعت پسند کی ترکیب وضع ہوئی اور میرے سوکھے دھانوں پر مانی پھرا۔ مجھے زندہ رہنے اور زندگی گزارنے کا ایک سہارا ملا اور میری صحت اچھی ہونے لگی۔ اب جب سے فنڈا منٹلسٹ کا لفظ ایجاد ہو کر آیا ہے مفتی پہلے سے ذیادہ صھت مند اور چاق و چوبند ہو گیا ہے۔ ملا لوگوں کے اسی طعن و تشنیع اور چونڈی دندی نے ممتاز مفتی کو ایک عامل کامل صوفی بنا دیا ہے۔ وہ کسی ورد، وظیفے، نماز، روزے یا زکر و اذکار سے اس مقام پر نہیں پہنچا۔ ملازمتوں کا مکٹ سجا کت اہل صفا میں جا بیٹھا ہے۔ کوئٹہ سے ایک باریش اور باشرع صوفی جب پنڈی اسلام آباد آئے تو انہوں نے مہینی ڈیڑھ مہینہ مختلف حلقہ ہائے صوفیوں کا جائزہ لینے کے بعد ممتاز مفتی کو پنڈی اسلام آباد کا پیر طریقت مقرر کر دیا اور ہم سب پر اس کی اطاعت لازمی کر دی۔ یہ ایک ایسا تکلیف دہ اور غیر انسانی حکم تھا کہ مفتی نے ہمارے ساتھ مل کر اور ہمیں عرغلا بھڑکا کر اس حکم کے خلاف رٹ کرا دی۔ تھوڑے عرڈے بعد پنڈی اسلام آباد کے وہ گروہ بھی ہمارے ساتھ آ کر شامل ہو گئے جن کا قلبی، نسبی اور خاندانی طور پر اس گدی پر ازل حق بنتا تھا۔ ادھر کوئٹہ کے پیر صاحب نے کوئٹہ پہنچ کر دوسرا ستم یہ کیا کہ اعلی درجے کا ایرانی جانماز اور سنگ چانی کی ایک مرصع ےسبیح ممتاز مفتی کو بھجوا دی۔ مفتی یہ تحفے پا کر بہت خوش ہوا اور پیر صاحب کو بذریعہ ایکسپریس تار پیغام بھجوایا کہ جا نماز مل گئی، توجہ کا شکریہ۔ اب مہربانی کر کے ایک نمازی بھی بھجوا دیں تاکہ جا نماز استعمال ہو سکے۔ انہوں نے بذریعہ جوابی تار ممتاز مفتی سے ان کا عہدہ اور ولایت واپس لے لی اور مفتی ہنسی خوشی لوٹ کر ہمارے درمیان آ گیا۔ ایسے خطرات سے یہ کئی مرتبہ بڑے احسن اور سلیقے کے ساتھ بر آمد ہوا ہے اور مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔

ممتاز مفتی اس عالم ناسوت میں احترام صرف عکسی مفتی کا کرتا ہے اور محبت قدرت اللہ شہاب سے۔ میں اس کے نقطہ احترام سے تو اختلاف نہیں کرتا البتہ مرکز محبت پر نکتہ چینی ضرور کرتا ہوں۔ قدرت اللہ شہاب ہمارے بھی دوستوں میں سے تھے۔ لیکن ممتاز مفتی نے ان کو ایسے مقام پر لا بٹھایا ہے کہ اب ان کی طرف رجوع کرتے ہوئے ہم سب کی ٹوپیاں گرنے لگی ہیں۔ اپنی دستار فضیلت سب کے سامنے گرتے ہوئے دیکھ کر کس کو تکلیف نہ ہو گی بھلا۔ لیکن یہ ہماری تکلیف سے بے پرواہ اور ہمارے احساس کمتری سے بے نیاز ایک ہی دھن الاپے جاتا ہے اور اس میں کسی قسم کی رخنہ اندازی برداشت نہیں کر سکتا۔ شہاب اپنے سارے قریبی دوستوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوا لیکن ہم سمجھ دار لوگ تھے اور اپنے نفع و نقصان کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ہم جن بھی اس قریب گئے زرہ بکتر پہن کر گئے۔ مفتی اس معاملے میں بالکل بھولا اور احمق انسان نکلا۔ وہ ململ کر کرتہ پہن کر اس کے پاس چلا گیا اور لمبی باتوں میں مصروف ہو گیا۔ لمبی باتوں اور گفتگو کے لہرے انجمنوں، محفلوں اور اسمبلیوں میں تو بڑا مزا دیتے ہیں لیکن کسی مرد خدا ہست کی حضوری میں خطرناک صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ مفتی کو یہ علم نہ تھاکہ گروسدھی موت ہوتا ہے۔ جو کوئی بھی تسلیم کی وادی سے گزر کر مرشد کی طرف جاتا ہے وہ موت کی طرف بڑھتا ہے۔ ایسی گہری گھناونی اور بھسم کر دین والی موت کی طرف کہ اس کے بعد کچھ بچتا ہی نہیں۔ دوسری موت میں تو جسم مر جاتا ہے شریر فنا ہو جاتا ہے لیکن شعور باقی رہتا ہے اور آگے چلا جاتا ہے لیکن گرو کے مارے ہوئے کا سب کچھ فنا ہو جاتا ہے سب بھسم ہو جاتا ہے۔ اس میں شریر باقی رہتا ہے نہ شعور۔ کلہم فنا ہو جاتا ہے بس ایک لافانی عنصر باقی رہ جاتا ہے جو اصل ہے، حقیقت ہے۔ جو ہے اور کہ نہ ہے۔ مفتی اپنی اس شیخی میں ایلا گہلا، بے گکرا، لاابالی انداز میں ململ کر کرتہ پہن کر شہاب کے سامنے چلا گیا اور اپنی چرب زبانی کا چلہ کھینچ کر اس کے سامنے ڈٹ گیا۔ لیکن یہ بابے لوگ بڑے چالاک اور ایسے مسک میسنے ہوتے ہیں کہ دانش کے سارے راستے روک دیتے ہیں۔، ان کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ دانش اور عقل کی باتوں سے تو تم سمجھ ہی جاو گے کہ اس میدان میں تمہاری پریکٹس کافی پرانی ہے اور علم سے تو تم قائل ہو ہی جاو گے کہ تمہارے گھر کو صرف یہی ایک راستہ جاتا ہے لیکن علم سے قائل ہونا تمہارے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکے گا۔ تم عقلی طور پر تع معقول ہو جاو گے لیکن اصلی طور پر نہیں۔ سمجھ تو جاو گے لیکن تبدیل نہ ہو سکو گے۔ ایسے میں ان کے پاس شیوا جی کا ایک چھپا ہوا فولادی پنجہ ہوتا ہے جو وہ بغلگیر ہوتے وقت ململ کرتے والے افضل خان کی کمر میں اتار کر اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ڈھیر کر دیتے ہیں۔ اس لئے ختم کر دیتے ہیں کہ علم اور معلوم کی جگہ لامعلوم کا گیان حاصل ہو جائے۔ خرد کی جگہ دل زندہ ہو جائے اور پھر سے دل کے دھڑکنے کے قابل ہو جائے۔ تمہارا پھر اس تعارف ہو جائے۔ اپنے قریبی اور قریب ترین دوست سے جس کو تم نے ازل سے بھلا رکھا ہے اور بالکل فراموش کر دیا ہے۔

اب ہمارے سارے ساتھی پریشان ہیں اور اپنے محبوب دوست مفتی “افظال خان” کا لاشہ اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں جس کی کمر میں فولادی پنجہ اترا ہوا ہے اور جس کا زخم اب بھی تازہ ہے۔ نہ ہم اسے گورنر کے پھاٹک پر یا ایوان صدر کی سیڑھیوں پر لے جا کر احتجاج کر سکتے ہیں نہ اخباروں میں بیان دے کر اس خون نا حق پر کوئی تحریک چلا سکتے ہیں اور نہ ہی اسے نہلا دھلا کر دفن کر سکتے ہیں کہ خون ابھی تک رستا ہے اور بدن میں حدت باقی ہے۔ ہمارے لئے یہ ممتاز مفتی ہماری جانوں کا ایک عذاب بن گیا ہے۔ جن زندہ تھا تن بھی عذاب تھا اور اب جب فوت ہو چکا ہے تو اور بھی عذاب بن گیا ہے۔ ہم اس سوا لاکھ کے ہاتھی کو کہاں پھینکیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button