لکھ یار

حیات از قلم “عظمیٰ خرم “

  1. #پری_اپرووڈ
  2. #حیات_پارٹ_10

# حیات 

پارٹ 10

بختاور نے زار و قطار روتے ہچکیوں سے بیٹی داستان غم سنی اسے بار ہا گلے سے لگایا ۔”دیکھ شازی ! بڑا اچھا کیا جو تو ان لوگوں کو شیشے میں اتار کے چلی آئی ۔اب تجھے کسی سے ڈرنے کی بلکل کوئی ضرورت نہیں ہے ۔یہ ہمارا شہر ہے میں پولیس کو سب کچھ سچ سچ بتا دوں گی اور ۔۔۔ 

“۔ “نہیں بے بے نہیں ،ایسا کچھ نہیں کرے گی تو ،گلبدن باجی نے فیروز خان سے میرا نکاح پڑھوا دیا ہے ۔اب یہ میرا شوہر ہے ۔آج نہیں تو کل مجھے اسی کے ساتھ واپس جانا ہے “۔ شازی نے بختاور کے سر پر بم پھوڑا ۔”پاگل ہو گئی ہے تو ،جهلی انہوں نے یہ جھوٹا نکاح کیا ہے ۔ساری زندگی کے لئے تجھے غلام بنانے کے لئے “۔ بختاور رونے لگی ۔”نہیں بےبے ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔۔تو اپنا دل صاف کر لے ۔۔۔دو مہینے ہونے والے ہیں ہمارے نکاح کو فیروز نے پہلے دن سے مجھے بیوی والے سارے حقوق دیے ہیں ۔اس سے اچھا زوج مجھے مل ہی نہیں سکتا تھا بلا شبہ میرے اللّه نے مجھے بد ترين سے گزار کے بہترین سے نوازا ہے ۔بیشک یہ شادی فیروز نے گلبدن کی ضد سے کی ہے پر نبھائی اللّه کے حکم کے مطابق ہے ۔اس نے مجھے نوکرانی بھی رکھ کر دی ہے تا کہ میں خود کو نوکرانی نہیں اس کی بیوی سمجھوں ۔جو جو حق گلبدن کے ہیں وہی وہ مجھے دیتے ہیں ۔ایک ہی رنگ کے کپڑے اور جوتے لا کے دیتے ہیں ۔حتہ کہ دو تربوز لاتے ہیں اور دونوں کو آدھا آدھا کاٹ کر ہم دونوں کو بھجواتے ہیں کہ کہیں کسی کی حق تلفی نہ ہو جائے ۔ہر ناپ تول والی شے کو وہ برابر تقسیم کرتے ہیں پر میں جانتی ہوں ان کے دل کی ملکہ گلبدن ہی ہے ۔پر دل پر تو کوئی زور نہیں نا ۔اس نے مجھے عزت بنایا ہے اپنی اور میرے لئے اتنا بہت ہے کہ بہروز کی طرح کل کو میری بولی نہیں لگواے گا ۔” بختاور یک ٹک بیٹی کو دیکھے گئی ۔صرف ڈیڑھ سال کے عرصے میں اس کی بیٹی کی سوچ کیا سے کیا ہو گئی تھی ۔شازی سہی معنی میں بڑی ہو گئی تھی ۔زمانے کی ٹھوکروں نے اسے مضبوط کر دیا تھا ۔اب اسے کوئی خوف نہیں تھا اب اس کی بیٹی زمانے کا سامنا کرنے کو تیار تھی ۔

 

بختاور کو شازی اپنے ساتھ پشاور لے گئی تا کہ وہ ایک ماں کی حثیت سے اپنی بیٹی کو اس کے سسرال میں عزت سے راج کرتا دیکھ لے ۔گلبدن اور اس کے بچوں کی شازی کے لیے لگاؤ اور محبّت دیکھ کر بختاور کے سارے خدشات دور ہو گئے تھے ۔

زاہد جب سے کراچی گیا تھا اس نے ماں کو پلٹ کر بھی نہ پوچھا تھا ۔نہ کوئی خیر نہ خبر ۔پھر بھی مامتا کی ماری ہر سانس کے ساتھ بیٹے کے لیے دعا کرتی ۔

حامد نے بھی جیسے تیسے میٹرک کر لیا تھا اور قيد سے چھٹے قيدی کی طرح دارلشفقت کے ساتھ ساتھ تعلیم کو بھی خیر بعد کہہ دیا تھا ۔باہر آ کر اس نے ایک فرنیچر کی دکان پر ملازمت کر لی ۔بختاور خوش تھی کہ چلو ایک بیٹا تو اس کے پاس ہے ۔شازی کی شادی کا قرض وہ اب تک ادا نہ کر پائی تھی ۔اس نے سوچا کہ حامد کی مدد سے جیسے ہی وہ قرض اتار دے گی تو احد کو دارلشفقت سے واپس لے آے گی کہ وہ اس کا لاڈلہ چھوٹا بیٹا اب وہاں تنہا تھا ۔اس نے حامد سے بات کی کہ کیوں نہ وہ احد کو واپس لے آیں اور یہاں پاس کے اسکول میں داخل کروا دیں ۔پر حامد نے ٹال مٹول شروع کر دیا ،”دیکھ بے بے زیادہ جذباتی ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔اکیلا ہے تو کیا ہوا ہم بھی تو چھوٹے تھے ۔ہم پر تو تو نے کبھی ترس نہ کھایا ۔زاہد ٹھیک کہتا تھا تو نے ہمیشہ اسے اپنا ،”یوسف “،سمجھا اور ہم سے ہمیشہ سوتیلوں والا سلوک کیا ہمیں کھلانے کے لئے تیرے پاس روٹی نہیں تھی اور اس کے غم میں تو مرتی جا رہی ہے ۔جب تو نے ماں ہوتے ہوے اولاد کی پرواہ نہیں کی تو مجھ سے کیوں امید کرتی ہے کہ میں بھائی ہونے کی حثیت سے احد پر اپنی خون پسینے کی کمائی نچھاور کر دوں اور ویسے بھی میں جو بھی کماؤں گا اس سے اپنی زندگی بناؤں گا ۔میری کمائی پر نظر رکھنے کی بلکل کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ جیسے سب چل رہا ہے ویسے ہی چلنے دے “۔ بختاور کو رتی برابر امید نہیں تھی کہ اس کی اولاد اس کے بارے میں اتنے ،”قیمتی خیالات”،رکھتی ہے ۔ایک ایک لفظ زہر میں بجھے تیر کی مانند اسے چھلنی کر گیا۔کیا کیا نہیں برداشت کیا اس نے اس اولاد کی خاطر اور آج وہی اولاد اس کی قربانیوں کے مینار پر چڑھ کر ماں کو حقیر ثابت کرنے پر تلی بیٹھی تھی ۔

غم اور دکھ نے اسے مزيد کمزور کر دیا اس کے اندر ڈیرہ ڈال لیا ہو جیسے ۔احد کے دکھ نے آنکھوں کو نمی دی اور اس نمی نے ،”کالا موتیا”، رفتہ رفتہ اس کی ایک آنکھ کی بینائی مزيد کمزور پڑنے لگی ۔

حامد کے اصرار پر بختاور نے اسی کے دوست کی بہن سے اس کی شادی کروا دی ۔نشو اس کے ایک کمرے کے گھر میں دلہن بن کر آ گئی ۔بختاور اپنی چارپائی لے کر چھوٹے سے سٹور میں جا بسی ۔لوہے کی دستی پیٹی کے ساتھ چھوٹی سی جگہ پر رات کو چارپائی ڈال لیتی اور دن میں اسے باہر صحن میں کھڑا کر دیتی ۔حامد اور نشو اس اونٹ کی مانند تھے جو اس کے خیمے سے اسے بیدخل کر چکے تھے ۔

ممتا کی ماری ہر چھٹی پر احد کو ملنے چلی جاتی یا کبھی کبھی اسے ساتھ لے آتی ۔حامد اور اس کی بیوی کا احد کے ساتھ لیا دیا سا تعلق تھا بس ۔احد سلطان نے دونوں بھائیوں کے یکے بعد دیگرے ادرہ چھوڑنے کے بعد بارہا بےبے سے ضد کی کہ وہ اسے بھی اپنے پاس لے جائے کہ بھائیوں کے بنا اس کا دل نہیں لگتا تھا ۔چاہتی تو بختاور بھی یہی تھی پر حامد کے رویے نے دونوں ماں بیٹے کو خوب سبق سکھایا تھا ۔

احد جب بھی چھٹی پر گھر آتا حامد اور اس کی بیوی نشو اسے ایک لمحہ سکون کا نہ لینے دیتے ۔کبھی اسے بازار بھیج دیتے کبھی حامد اسے اپنے ساتھ دکان لے جاتا اور سارا دن اسے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے دوڑاتا ،حد تو یہ کہ نشو بختاور کی غیر موجودگی میں احد سے جھاڑو پونچا بھی کرواتی ۔غرض بیچارے کو ایک لفظ پڑھنے کی فرصت نہ ملتی اور نتیجہ چھٹی سے اگلے روز سبق نہ یاد کرنے کی پاداش میں ماسٹر اللّه دتہ اسے مرغا بناتے اور کبھی کبھی تو ،”مولا بخش”،کا دیدار بھی کرواتے ۔

احد ایک بے حد سمجھدار بچہ تھا اس نے ماں کی پریشانی بھانپ لی تھی ۔اب وہ خود بےبے سے کہتا بےبے تو مجھے گھر نہ لے جایا کر میرے سبق کا حرج ہوتا ہے ۔بختاور تو پہلے ہی یہی چاہتی تھی کہ احد جتنا ہو سکے حامد سے دور رہے اور اپنی پڑھائی پر توجہ دے ۔پر معصوم احد کو یہ بھی نہیں منظور تھا کہ اس کی بےبے ہر چھٹی پر اتنا لمبا سفر کر کے کرایہ خرچ کے اس سے ملنے آے ۔وہ اکثر بےبے کو منع بھی کرتا پر بختاور ممتا کی ماری اسے دیکھنے آ ہی جاتی ۔”دیکھ احد !میرے دل کے ٹکڑے تیری جدائی کا ایک ایک لمحہ مجھ پر بھاری ہے اور تجھ پر قرض ہے ۔تو جتنا ہو سکے محنت کر اور اچھے نمبروں سے پاس ہو کر یہاں سے نکلنا۔اب اگر تو نے یہ جدائی اپنا ہی لی ہے تو مجھے مایوس نہ کرنا ۔”

گزرتے وقت کے ساتھ حامد بھی بیوی کو لے کر زاہد کے پاس کراچی جا پہنچا اور دونوں بھائی مل کے رہنے لگے ۔زاہد نے وہاں پہلے ہی شادی کر رکھی تھی ۔بختاور اتنے میں ہی راضی ہوئی کہ چلو میری اولاد میرے ساتھ نہ سہی آپس میں تو راضی خوشی رہے ۔

احد سلطان اب ساتویں جماعت کا طالب علم تھا اور ساتھ ساتھ قرآن پاک بھی حفظ کر رہا تھا ۔دارلشفقت کے اساتذہ کرام اس سے بہت خوش تھے ۔

احد چھٹی پر گھر آتا تو جتنا ہو سکتا ماں کا ہاتھ بٹاتا اس کے ڈیوٹی سے آنے سے پہلے گھر کی صفائی کرتا ،پانی بھرتا ،کپڑے دھوتا ۔محلے کی ساری عورتیں اس کی ایک ایک ادا پر قربان جاتیں ۔وہ تھا ہی اتنا پیارا کہ اس پر قربان ہوا جاتا ۔گورا چٹا رنگ ،چھیرا بدن ،نکلتا ہوا قد کاٹھ اور گہرے بھورے بال ۔بختاور تو اسے دیکھ دیکھ کر جيتی تھی جب جب اس کی نظر احد کو دیکھتی تو اسے حشمت اللّه یاد آتا وہ ہو بہو اپنے باپ کی شبیہ تھا ۔اعلی نسل ڈوگر ۔

احد سچ میں بختاور کے بڑھاپے کا سکھ تھا ۔

احد کی بھی یہی کوشش ہوتی کہ جتنا ہو سکے ماں کو سکھ پہنچا سکے ۔پر کبھی کبھی چھٹی پر کرایہ کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اسے ادارے میں ہی رکنا پڑتا اور کبھی کبھی وہ میلوں پیدل چل کر آدھا راستہ طے کرتا اور آدھا راستہ بس میں ٹی ٹی سے چھپتے چھپاتے ۔

پر اس کا حل بھی اس ننھی سی جان نے نکال ہی لیا ۔اس بار جب شروع مہینہ میں بےبے نے اسے جيب خرچی دی تو اس سے اس نے غبارے خرید لئے اور ہسپتال کے بڑے سے احاطے میں جا کھڑا ہوا ۔چند گھنٹوں میں ہی اس کے سارے غبارے بک گئے اور اس نے اتنی آمدن کر لی کہ وہ ان پیسوں سے اپنی جيب خرچی کے علاوہ مزيد ایک پیکٹ غبارے خرید سکتا تھا ۔آج وہ بہت خوش تھا ۔اس نے اپنی بےبے کو روتے دیکھا تھا بلکتے دیکھا تھا کہ اس کے دونوں بھائیوں نے ماں کو مڑ کے نہیں پوچھا تھا۔اپنی ماں کی تکلیف ،محنت اور قربانی کا خیال کر کے وہ رونے لگا اس کی آنکھوں کے آگے اس کی بےبے کی زندگی کا ایک ایک لمحہ فلم کی طرح چلنے لگا ۔آج اس نے خود سے عہد کیا کہ وہ اپنی بےبے کو ہر خوشی اور آسایش مہیا کرے گا جو اس کا حق تھی ۔

احد گھر آیا تو اس کی آنکھوں میں گلابی ڈورے تھے اور ہونٹ ضبط کے بندھن میں بندھے ہوے تھے ۔”احد سلطان !کدھر چلا گیا تھا تو کاکے ؟میں کب سے تیری راہ دیکھ رہی تھی کہ کب تو آے تو میں تیرے سر میں تيل ڈالوں ماں کا خیال کرتے کرتے خود کو بے حال کر لیا تو نے ۔کتنا سمجھاتی ہوں نہ گھر کے کام کیا کر یہ کڑیوں کے کرنے کے کام ہوتے ہیں جهلا نہ ہو تو ،چل ادھر آ ۔۔۔۔۔”بختاور اپنی ہی دھن میں بولے چلے جا رہی تھی تبھی اس نے چونک کر احد کی جھکی نظروں میں دیکھنا چاہا ۔

بختاور کی دھندلی نظر نے اسے دکھایا کہ اس کا بیٹا افسردہ ہے ۔”کیا ہوا میرے چندا !لڑ کے آیا ہے تو کسی سے ؟؟پر تو تو کبھی کسی سے نہیں لڑتا ! بتا پھر کیا ہوا ہے ،میرا دل ہول رہا ہے “۔ احد نے ضبط سے ہونٹ دباے نگاہ اٹھائی تو آنکھ کا بند ٹوٹ گیا اور آنسو اس کے گال پر لڑکھ گئے ۔احد نے بند مٹھی بےبے کے سامنے کھول دی اس کی ھتیلی پر سکے دیکھ کر بختاور نے نا سمجھی سے اسے دیکھا ،”بےبے آج کے بعد تو کبھی نہیں روے گی ۔میں تیری خوشی کے لئے سب کچھ کروں گا ۔یہ دیکھ تیرے بیٹے کی پہلی کمائی “۔ بختاور نے احد کو فرط جذبات سے گلے سے لگا لیا ۔اس کے اندر جانے کب سے خاموش لمحہ لمحہ رستا ہوا غم کا آتش فشاں پھٹ پڑا ۔آج سارے غم بہہ جانے کو تھے ۔وہ جان ہی نہ سکی اور اس کا بیٹا اتنا بڑا ہو گیا ۔

احد اب جب بھی چھٹی پر آتا گھر کے کام کرنے کے بعد غبارے بیچتا پر اس کا ایک اصول تھا وہ دو پیکٹ سے زیادہ نہ بیچتا۔پھر وہ دو پیکٹ غبارے چاہے دو گھنٹے میں بکتے یا چار گھنٹے میں وہ فورا گھر کا رخ کرتا کیوں کہ اسے اپنی ماں کی تنہائی کا ساتھی بننا تھا ۔دونوں ماں بیٹا دل کھول کے ہنستے ادھر ادھر کی باتیں کرتے۔

احد کی تمام محنت ،محبت ،اور خیال مل کر بھی اس کی ماں کی بینائی نہیں بچا سکے ۔بختاور کی ایک آنکھ کی بینائی بلکل ختم ہو چکی تھی ۔احد جب جب اس کی سلیٹی مائل سفید آنکھ دیکھتا تو اس کا دل خون کے آنسو روتا ۔وہ ہر نماز کے بعد دعا مانگتا کہ ،”یا اللّه میری ماں کو اس کا اچھا وقت ضرور دکھانا اس کی قربانیوں کا اجر صرف تیری ہی ذات دے سکتی ہے ۔ہم سب بھائیوں کو اپنی ماں کی مسرت کا باعث بنا دے ،اس کی بینائی لوٹ آے کہ وہ اپنے لگاے ہوے بوٹوں کا پھل دیکھ کر خوش ہو سکے “۔

احد کی دعائیں ایک طرف اور اس کی ماں کی بینائی ایک طرف ۔جانے کیسی آزمائش تھی ۔بختاور کی دوسری آنکھ بھی تيزی سے کالے موتیے کا شکار ہونے لگی ۔

احد نے قرآن پاک حفظ کر لیا تھا اور میٹرک کے امتحان دے کر گھر آ گیا تھا ۔

جاری ہے……. جاری ہے…..

از قلم ،”عظمیٰ خرم “

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button