Talash by Mumtaz Mufti

کتاب : تلاش

باب 4 : بڑی سرکار

ٹرانسکرپشن : سمرن چٹھہ

ابو لہب اور یہودی


فالسی فیکیشن ٹیسٹ کے سلسلے میں گیری ملر نے دو بہت دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔ لکھتا ہے.
محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ایک چچا تھا جسکا نام ابولہب تھا.
ابو لہب کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عداوت تھی۔ اسکی زندگی کا واحد مقصد قرآن اسلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانا تھا۔ وہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پیچھا کیا کرتا تھا. جہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جاتے وہ پیچھے پیچھے جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کو جھٹلاتا. اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے کہ یہ چیز سفید ہے تو وہ جھٹ بول اٹھتا نہیں یہ چیز کالی ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے کہ دن ہے تو وہ کہتا نہیں رات ہے۔ قرآن میں ابولہب کا ذکر بھی آیا ہے کہ!
وہ دوزخ کی آگ میں جلے گا اور دوزخ کی آگ میں جلنا اس کا مقدر ہے۔ مطلب یہ کہ وہ کبھی اسلام قبول نہیں کرے گا اور کافر ہی رہے گا.
گیری ملر لکھتا ہے کہ اس آیت کے نازل ھونے کے بعد ابولہب دس سال زندہ رہا۔ اسکے لیے قرآن کو جھٹلانا بہت آسان تھا. وہ مسلمانوں سے کہتا دوستو! میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں مجھے مسلمان بنا لو۔ جب وہ مسلمان بنا دیتے تو کہتا لو بھئ تمہارا قرآن تو جھوٹا ثابت ھوگیا۔ اب بولو۔ لیکن ابولہب نے ایسا نہیں کیا حالانکہ اسکی زندگی کا مقصد ہی یہی تھا کہ وہ قرآن کو جھوٹا ثابت کرے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلائے.
: گیری ملر ایسی ہی ایک اور مثال دیتا ہے لکھتا ہے.
قوموں کی حیثیت سے انسانی رشتوں کا ذکر کرتے ھوئے قرآن کہتا ہے کہ بحثیت قوم یہودیوں کی نسبت عیسائی مسلمانوں سے بہتر سلوک روا رکھیں گے لہذا یہودیوں کے لیے قرآن کو جھٹلانا آسان کام تھا.
یہودی مسلمانوں سے میل جول بڑھاتے ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے انہیں اپناتے اور پھر کہتے مسلمانو! تمہارا قرآن غلط ہے. چونکہ ہم مسلمانوں سے عیسائیوں کی نسبت زیادہ۔بہتر تعلقات کے حامل ہیں لیکن یہودیوں نے ایسا نہیں کیا. اور لگتا ہے کہ مستقبل میں بھی ایسا نہیں کریں گے.
گیری ملر نے تو بڑی رواداری سے بات کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں کا مسلمانوں سے جو رویہ ہے وہ قرآن کو جھٹلانے کی بجائے اسکے دعوے کو شدت سے تقویت دیتا ہے.
قرآن پڑھنے سے پہلے میں حیران ہوا کرتا تھا کہ یہ کیسی کتاب ہے کہ ہر فرقہ وار اپنے نظریات کے جواز کے لیے قرآن کا حوالہ دیتا ہے حالانکہ ان کے نظریات بلکل مختلف یا متضاد ہوتے ہیں.
مثل و شعور کو ماننے والے بھی قرآن کا حوالہ دیتے ہیں. جزبے اور وجدان کو ماننے والے بھی قرآن کا حوالہ دیتے ہیں. تنگ خیال کٹر مسلمان بھی اپنے مسلک کا جواز قرآن سے اخذ کرتے ہیں۔ وسعت قلب کو ماننے والے بھی قرآن کو کوٹ (quote) کرتے ہیں.
پرانی بات ہے ان دنوں میں سرکاری میڈیا کے ایک محکمے میں کام کرتا تھا۔ اوپر سے حکم آتا کہ قرآن سے فلاں بات کے جواز کے لیے آیت تلاش کرو اور حکومت کے فلاں اقدام کے حق میں سکرپٹ لکھ کر اسے نشر کرو. حکم موصول ہونے پر ہم مولوی صاحب کو بلا بھیجتے جو میڈیا کے سٹاف پر تھے۔ مولوی صاحب بغیر کسی تردد کے آیت ڈھونڈ کر مجھے اس کا ترجمہ لکھا دیتے اور میں سکرپٹ لکھ دیتا۔ ان دنوں مجھے کبھی احساس نہ ہوا تھا کہ ہم قرآن کو استعمال کررہے ہیں اور لاجک کے اصولوں کی خلاف ورزی کررہے ہیں.
Premisis
سے نتیجہ نہیں نکالتے بلکہ نتیجے کے لیے premisis تلاش کرتے ہیں.
اسے لاجک میں cart before the horse کہتے ہیں یعنی الٹی گنگا.
پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے۔ پاکستان بننے کے بعد تو اسلام کو استعمال کا ایک طوفان امڈ آیا۔ آمر نے اپنی آمریت کو مستحکم کرنے کے لیے اسلام کو استعمال کیا۔ بی بی جمہوریت نے اپنی عظمت قائم کرنے کے لیے اسلام کے نعرے لگائے۔ سیاستیوں نے اپنے ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لیے اسلام کو برتا.
مذہبی لیڈروں نے اپنی اہمیت قائم کرنے کے لیے اسلامی روپ دھارا۔ مولوی اور علمائے دین تو خیر ہمیشہ سے اپنی اہمیت جتانے کے لیے اپنی اتھارٹی چلانے کے لیے اسلام کو استعمال کرتے رہے اور گمان غالب ہے کہ کرتے رہیں گے.
میں نے اپنے دوست احمد بشیر سے پوچھا “یار تو اتنا بڑا اور سینئر صحافی ہے یہ بتا کیا تو نے کبھی اسلام کی خدمت کی بھی ہے اس سلسلے میں تیری کیا contribution ہے؟”
بولا ! “میں نے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے اور مسلسل کررہا ہوں”
وہ کیسے؟ میں نے پوچھا۔
بولا ! اسلام پر میرا بہت بڑا احسان ہے کہ میں نے کبھی اسلام کو استعمال نہیں کیا۔ اپنے ذاتی مفاد کے لیے نہ اپنی تحریر کو تقویت دینے کے لیے۔ اس سے بڑی خدمت اور کیا ہو سکتی ہے؟
بےشک “میں نے جواب دیا” یہ بہت بڑی خدمت ہے۔
صاحبو ! اب تو اسلام کو استعمال کرنے کی رسم اس قدر عام ہو چکی ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں رہا کہ یہ ایک قبیح فعل ہے.
بالکل ایسے جیسے رشوت لینا عام ہوچکا ہے اور ہم نے اسے legalise کر لیا ہے۔ سیاسی پارٹیاں کھلم کھلا اسلام کے نام کو استعمال کررہی ہیں.
گزشتہ 45 سال میں کسی اسلام پارٹی نے کسی الیکشن میں قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کی۔ الٹا ان کے رویے نے پڑھے لکھے لوگوں کے دلوں میں نفاذ اسلام کی دہشت طاری کررکھی ہے۔ کئی بار ایسا ھوتا ہے کہ جب ٹی وی کا کیمرہ ارکان اسمبلی کو pan کرتا ہے تو چلتے چلتے دفعتہ ایک کونے میں ایک غیر معمول منظر سامنے آجاتا ہے۔ کچھ ایسے لوگ نظر آتے ہیں ، جن کے لباس انداز طورطریقے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ ناظر کو ایک دھچکا سا لگتا ہے کہ اسمبلی میں aliens کہاں سے آگئے.
مجھے حیرت ہے یہ لوگ اسمبلی میں کس امید پر بیٹھے ہیں پھر یہ بھی کہ جس جمہوریت کی یہ خدمت کررہے ہیں ان کا رنگ غیر اسلامی ہے.

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button