Sohni Biography of Ayesha Chaudary

Episode 4

آپا کا نکاح ہو گیا۔۔رخصتی دو سال بعد ہونا قرار پای۔۔۔اماں نے رشتہ کرتے وقت صرف لڑکے کی تعلیم ،ماں باپ کی شرافت اور خاندان کو سامنے رکھا۔۔ماموں نے ایک دوبار کہا لڑکا ابھی بیروزگار ہے۔۔اماں کہتیں پڑھا لکھا ہے نوکری بھی مل جائے گی آنیولالی اپنا نصیب ساتھ لاتی ہے۔۔ماموں انہیں کرائے کے گھر میں شفٹ کروا کے خود واپس دبئ چلے گئے۔۔
اماں اور ابا کے رشتے کے ایک ماموں گجرات رہتے تھے۔۔خاندان کے لوگ انسے زیادہ میل ملاپ پسند نہ کرتے تھے ان ماما جی کی پہچان ایک سیاسی پارٹی کے کارندے اور بدمعاش کی سی تھی انکا اکلوتا بیٹا جو شادی شدہ تھا چار سال بعد پاکستان آیا تو اچانک سوہنی کے گھر اسکے ابا کا افسوس کرنے چلا آیا۔۔۔اماں اب بیٹیوں کے معاملے میں بہت احتیاط رکھتی تھیں لیکن یہ رشتے میں انکا چچا اور ماموں تھا جب دوبارہ دس دن بعد اسکا چکر آن لگا تو اماں کچھ کھٹک گئیں۔۔۔اماں نے دھیمے انداز میں اسے آئیندہ اکیلے آنے سے منع کر دیا ابا کی وفات کے بعد اماں خاندان سے کٹ کے رہ گئ تھی۔۔۔ہر وقت گھر پہ موجودگی کو قائم رکھنے کی وجہ سے وہ کوئ کام کاج نہ پکڑ پاتی معاشی حالات ابتر ہوتے جاتے اب آپا کے جہیز کی بھی تیاری شروع تھی
مامی جو آ کر ماموں کے خرچے کے نام پہ پکڑاتی اماں خاموشی سے لے لیتیں۔۔
ڈیڑھ دو مہینے بعد اماں کے ماما جی اپنی بیٹیوں بہو اور گھر والوں کیساتھ آ دھمکے۔۔۔
اماں کچھ حیران پریشان انکی آؤ بھگت میں لگ گئیں۔۔
انکے جانے کے بعد اماں کو بہت پریشان دیکھ کر آپا نے وجہ پوچھی۔۔
اماں بار بار ٹالتیں۔۔
پھر بتایا کہ ماما جی اپنی بہو کے اکلوتے بھائ کا رشتہ سوہنی کے لئے لیکر آئے تھے۔۔یہ اتنی سیدھی بات نہیں لگتی۔۔سوہنی تو ابھی چودہ سال کی ہے۔۔
انکی بہو بہت امیر اور بڑے گھرانے کی ہے پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائ ہے۔۔۔
ہم انہیں ذاتی طور پر جانتے تک نہیں تو ایسے کیسے وہ ہمارے گھر چلے ائے۔۔دونوں گھروں میں کوئ تال میل نہیں۔۔
خیر ماموں سے کال پہ مشورے کے بعد سوچا گیا کہ نرمی سے انہیں منع کر دیا جائے گا
آپا کا سسرال بہت مختصر تھا سسر زیادہ تر تبلیغی جماعت کیساتھ چلوں پہ رہتے۔۔
ساس خود ٹیچنگ کرتیں دو ہی بیٹے تھے جو اعلی تعلیم یافتہ اور بہت مہذب تھے۔۔
مال و دولت اور پیسے کی کوئ ریل پیل نہ تھی
نکاح کے چند ماہ بعد ہی داماد کی بہت اچھی نوکری ہو گئ آپا کی ساس اب اور بھی صدقے واری جاتیں کہ بہو بہت نصیب والی ہے کبھی کبھار وہ بیٹے کیساتھ اماں کو ملنے آ جاتیں آپا اور مظہر بھائ کی آپس میں کوئ بات چیت نہ ہوتی انکے آنے پہ آپا کچن میں جا گھستی۔۔
سوہنی کی زندگی میں ابا کے جانے کے بعد ماموں اور پھر بہنوئ واحد رشتہ تھا جو مرد تھا۔۔۔
سوہنی بھائ بھائ کرتی آگے پیچھے منڈلاتی رہتی ایک وقت ایسا آیا کہ وہ سوچتی کہ میں آپا کی شادی پہ بارات کیطرف سے آونگی میں لڑکے کی بہن ہوں۔۔خاندان میں کوئ فوتگی ہوئ اور اماں کو سب کو ساتھ لیکر گاؤں جانا پڑا۔۔
فوتگی سے فارغ ہو کے جب سب مل بیٹھے تو پتہ چلا پورے خاندان کو گجرات والے رشتے کا ناصرف علم ہے بلکہ اسکے حوالے سے کافی چہ مگوئیاں بھی ہو رہی ہیں۔۔
عورتیں اماں کی قسمت پہ رشک کرتیں اور سمجھاتیں
کہ اسے نہ نہیں کرنی چاہئیے ایسا اعلی خاندان اور امیر گھرانہ اسکی بیٹی کے تو بھاگ کھل گئے تھے۔۔
مرد جنمیں سوہنی کے سگے تایا بھی شامل تھے نظریں چراتے فقرے کستے۔۔
ہمیں تو کوئ کچھ سمجھتا ہی نہیں ہے۔۔ہم مالک ہیں۔۔سرپرست ہیں ہم سے کسی نے پوچھا تک نہیں۔۔
اماں نے دیکھا کہ سارے ددھیال کو اس رشتے میں ناصرف دلچسپی ہے بلکہ انکی خواہش ہے کہ رشتہ ہو جائے۔۔
اماں مزید پریشان ہو گئیں
کیونکہ سوہنی کے لئے ابا شروع سے بہت حساس تھے اور اپنی بہن جو انگلینڈ ہوتی تھیں کہ ہاں اسکے رشتے کی خواہش کر چکے تھے۔۔پھپھی کی بھی بھتیجی میں جان تھی لیکن اماں کو پھپھی سے رابطے کا کوئ ذریعہ نہیں مل رہا تھا کہ کیسے اس ساری کھچڑی کا کچھ حل نکلے۔۔
اب اماں کے ماما جی ہر ہفتے دس دن بعد اپنی لمبی گاڑی میں آتے تو محلے والے دبک کے بیٹھ جاتے۔۔انکی آمد کا اردگرد پہ بہت اثر ہوتا
کیونکہ دنیا کے لئے انکا سٹیٹس،انکا رعب داب،سفید بال اور گھنی مونچھیں بہت کشش کا باعث تھا
آہستہ آہستہ اماں کو بھی لگنے لگا کہ اس رشتے میں انکی بہتری ہے۔۔ماما جی کی ریپوٹیشن دوسروں کے لئے کیسی بھی ہو خود انکے گھرانے کے حق میں اچھی ہے۔۔اکیلی عورتوں کو مظبوط سہارا چاہئے ہوتا ہے۔۔
لوگ ڈر کے رہینگے۔۔سوہنی اچھے گھر میں جائیگی تو بہنوں کا خیال رکھے گی۔۔انکی سوچ بدلنے لگی۔۔وہ یہ بھول گئیں کہ اتنے ٹیڑھے لوگوں کو وہ خود کیسے بھگتیں گی جو بات بے بات پستول اور بندوق نکال لیتے ہیں۔۔اور ایسے گھر میں بیٹی کیسے بیاہی گی جہاں لڑکا مربعوں کا مالک اور لڑکے کے باپ خاندانی رئیس اور پولیس میں افسر ہے۔۔
اس رشتے میں کوئ جوڑ میل نہ تھا۔۔آپا کا رشتہ کرتے وقت جو جو احتیاطیں سامنے رکھیں یہاں سب انکے الٹ پلٹ تھا۔۔
بڑے داماد کے بھائ کی شادی پہ سب نے شرکت کی آپا کو بھی جانا پڑا۔۔اپا اور مظہر بھائ ایک ہی چھت تلے شرمائے گھبرائے بیٹھے رہتے۔۔ولیمے کی شام اچانک وہاں ماما جی کی آمد ہوئ تو اماں نے دیکھا سب کسقدر مرعوب ہو کر انسے ملے ہیں۔۔اماں کا دل مزید پکا ہو گیا کہ اسی رشتے میں انکی سب بیٹیوں کا تحفظ ہے۔۔
ان سب باتوں سے بے خبر ابا کی سوہنی ڈھولک پہ گیت گاتی۔۔لڈیاں ڈالتی بنی سجی ادھر سے ادھر بھاگتی پھرتی۔۔
ماما جی نے سب کو گاڑی میں بٹھایا اور اماں کے بار بار اصرار پہ بھی نہیں بتایا کہ کدھر کو جا رہے ہیں کہتے رہے سرپرائز ہے۔۔
جب گاڑی گجرات کی حدود میں داخل ہوئ اماں کا دل بیٹھنے لگا۔۔
ماما جی کدھر نوں جا رے او۔۔؟
پھر دیکھا انکا گھر بھی گزر گیا ماما جی ہنستے جاتے ڈرائیور کو ہدایات دیتے جاتے۔۔
گاڑی گجرات سے آگے ایک گاؤں میں داخل ہوئ اور ہرے بھرے کھیتوں سے ہوتی ایک بڑی حویلی کے دروازے پہ جا رکی۔۔۔
اماں ٹھٹکی۔۔
ماما جی اے تے تواڈے کڑماں دا گھر نئیں؟ ( یہ تو آپکے سمدھیوں کا گھر نہیں)
حویلی کے اندر چہل پہل ایسے تھی جیسے کوئ وزیر دورے پہ ہو۔۔
سوہنی اور اسکی بہنیں اصل بات سے قطعی بے خبر مسحور کن ماحول میں حویلی میں داخل ہو گئیں۔۔
دائیں جانب قطار میں لڑکیاں ہی لڑکیاں یوں کھڑی تھیں جیسے بارات پہ پتیاں نچھاور کرنے آئ ہیں۔۔
ماما جی کی بہو آگے بڑھ کر اماں کو ملی
اچانک سوہنی کو لگنے لگا وہ مہمان خصوصی ہے وہ سب بہنیں باری باری آتیں اسے پیار کرتیں گلے لگاتیں اور یوں دیکھتیں جیسے وہ انکے بیچ کوئ اپسرا ہے۔۔
وہ شادی والے گھر سے سجی دھجی تقریبا دلہن بنی ہی اٹھ کے آئ تھی۔۔
آپا نے اسکا ہاتھ تھام لیا اور وہ چلتے ہوئے ڈرائنگ روم تک آ گئے۔۔
ڈرائنگ روم کے داخلہ دروازے پہ انکا ٹکراؤ ایک نوجوان سے ہوا جو اتنی لڑکیوں میں خود یوں گھبرایا ہوا تھا جیسے چھپ جانا چاہتا ہو۔۔
اسکی بہنوں نے اسے اشارہ کیا تو وہ اماں کو ملنے آگے بڑھا
رب حیاتی کری جیوندہ رہ۔۔
اماں نے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرا ۔۔
جانے کے لئے وہ رستہ ڈھونڈ رہا تھا اور سامنے اسکی بہنیں اور سوہنی کی بہنیں رستہ روکے کھڑیں تھیں۔۔
اسکی بہنوں نے اشاروں کنائیوں میں پتہ نہیں اسے کیا کہا کہ اسکا رنگ مزید پیلا پڑ گیا۔۔
بمشکل وہ جان بچا کے وہاں سے ایسے نکلا جیسے ہرن شیر سے بچ نکلا ہو۔۔
چائے کے لوازمات اور خاطر تواضع کے ہر ہر انداز میں اماں مزید پریشان ہوتی گئیں۔۔
فرق واضح تھا اور انمٹ تھا۔۔
یہ دو دنیاؤں کے کونے تھے۔۔جنکا ملنا ناممکن تھا۔۔
پھر پلٹ کے بہنوں کیساتھ ہنستی سوہنی کو دیکھا۔۔
اماں کو اسکے نصیبوں سے بڑا ڈر لگتا تھا دل میں کھٹک تھی کہ سوہنی صورت اسے لے ڈوبے گی۔۔پھر ابا کی آواز کانوں میں گونجتی یہ میری شہزادی ہے۔۔راج کریگی۔۔۔وڈی افسر بنے گی۔۔اس محل سے نکلتے گھر آتے تک اماں دو مختلف کیفیتوں میں گرفتار رہیں۔۔
شہزادی افسر بنے نہ بنے چودہ سال کی عمر میں شہزادی کو لینے شہزادہ پوری آن بان شان سے آ پہنچا تھا۔۔۔
اور دوسری طرف شہزادی کا گھر تھا،گھر والے تھے۔۔
جہاں شہزادے کو بٹھانے اور اسکے پورے گھر والوں کو چائے پلانے کے لئے اتنی پیالیاں تک میسر نہ تھیں۔۔۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button