Sohni Biography of Ayesha Chaudary

Episode 6

سوہنی کے منہ سے جھاگ نکل رہے تھے ہونٹ پھٹ گئے تھے تکلیف سے اسکا پورا جسم فالج زدہ مریض کی طرح پھڑکتا تھا اور منہ سے آواز نہ نکلتی تھی۔۔۔
اسے لاکر صحن میں چارپائی پہ ڈالا گیا سب کو سانپ سونگھ گیا۔۔
اماں کی زندگی میں پہلی بار کوئ ایسی صورتحال بنی تھی ابا کے بنا پہلی بار وہ اتنی بری سچویشن میں پھنس گئی تھیں وہ سینہ پیٹتیں کہ کیوں میں یہاں آ گئ۔۔وہ جانتیں تھیں یہ ایسے لوگ ہیں کہ بہت سوں کو بلا دھڑک مار چکے اور کوئ پوچھنے والا نہیں۔۔پولہس،تھانہ کچہری کوئ انکے آگے کچھ نئیں۔۔یہاں سے تو نکلنا ہی ناممکن تھا۔۔یہ سوچتے ہی انہیں خیال آیا کہ ابھی سوہنی انسے پوچھنے آئ تھی کہ انھیں اسکا یقین ہے کہ نئیں۔۔۔
وہ آگے بڑھیں اور سوہنی پہ تھپڑوں کی برسات کر دی۔۔
مر جا۔۔۔مر جا توں۔۔سب تیرے عذاب نیں توں مر ای جا تا کہ ساڈی جان چھٹ جائے۔۔آپا اور بہنوں نے روتے ہوئے اماں کو تھاما۔۔
اماں وہ تو پہلے ہی مر رہی ہے توں کیوں مار دی ایں۔۔
اماں نے ہذیانی کیفیت میں ان کے ہاتھ پکڑے چلو نکلو ایتھوں۔۔۔مر گئ اے ساڈے واسطے۔۔ساڈا ایدے نال کوئ واسطہ نئیں۔۔عجب ہوا کہ وہ سب جو کب سے انھیں زبردستی روکے کھڑے تھے چپ رہے کسی نے کچھ نہ بولا۔۔
اماں نے ایک بار پلٹ کر سوہنی کو دیکھا اور نکل آئیں۔۔۔
آپا سارے رستے روتی آئ اماں اسکا کیا قصور ہے۔۔
اسے کیوں وہاں ظالموں میں چھوڑ آئ ہو ۔۔
مر تو اسنے جانا ہی ہے پر اسکے پاس تو رہتی۔۔اماں چپ رہی۔۔
گھر پہنچتے انھیں رات ہو گئ۔۔
دوسری طرف سوہنی کی سخت خراب حالت دیکھ کر اسے ہاسپٹل لیجانے کا فیصلہ کیا گیا۔۔
چاچی کے والد جو پولیس آفیسر تھے اور دادا جی نے اسے گاڑی میں ڈالا اور تمام خواتین کو سختی سے منع کر دیا کہ اب کوئ شور ہنگامہ نہیں چاہئے اگر یہ مر گئ تو وہیں چھوڑ آئیں گے۔۔یہاں یہ ذکر بھی نہیں ہونا چاہئے کہ یہ لوگ یہاں آئے تھے۔۔ڈرائیور جو دادا جی اور ابا کی برادری کا تھا حیرت سے گاڑی میں لٹائ گئ بچی کو دیکھتا۔۔
اسے گجرات ایک پرائیویٹ کلینک لے جایا گیا۔۔ڈاکٹر کو گھر سے بلوایا گیا۔۔جتنی دیر میں ڈاکٹر پہنچا ڈرائیور سوہنی کی طرف دیکھ کر دھیرے سے بولا۔۔
بیٹا تمہیں میری آواز آ رہی ہے؟؟
میں نے پولیس کو اطلاع کر دی ہے اگر پولیس یہاں پہنچ جائے تو تم سب سچ سچ کہنا ڈرنا مت۔۔۔میرا نام نہیں آئے گا میں نے انھیں پڑوسی بنکر کال کی ہے پر تم سچ کہنا۔۔۔سوہنی کا کوئ جواب نہ ایا۔۔
ڈاکٹر نے سوہنی کو انجکشن دئے ڈرپس لگائیں۔۔اسے بار بار قے کروائ۔۔دادا جی کو بتایا منہ اور گلا بہت زخمی ہے۔۔لیکن اندر معدے اور جگر کو زیادہ نقصان نہیں ہوا بچی نے جو ایک دو گھونٹ بھر لئے وہ گلا کاٹ گئے زیادہ پینے کی اسمیں ہمت نہیں تھی۔۔۔ دو گھنٹے بعد سوہنی کو واپس گھر لایا گیا تو گھر کی قریبی چوکی پہ پولیس نے گاڑی روک لی۔۔۔دادا جی کے سمدھی نے معاملے کو سنبھالتے ہوئے کوئ بات بنا لی اور وہ لوگ واپس گھر پہنچ گئے۔۔
گھر پہنچتے ہی دادا جی کے سمدھیوں کا مطالبہ پھر زور پکڑ گیا۔۔انکا کہنا تھا ہماری برادری اور بیٹے کو اصل بات کا کچھ علم نہیں۔۔یہ ہماری ناک کا سوال ہے کہ ہمیں یہ رشتہ دیدیا جائے اور ظاہر ہے اب سوہنی کی ماں تو ایسا کبھی نہیں کریگی اس لئے آپ اسکے سربراہ بنکر ہمیں رشتہ دیدیں۔۔ہماری بیٹی کی جذباتی باتیں ایک طرف لیکن سوچیں اگر آپکے بیٹے یا خاندان کو ان سب باتوں کی خبر ہوئ تو معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔۔دادا جی کہتے معاملہ ہاتھ سے نکل چکا ہے بچی نابالغ اور ناسمجھ اور بیماری کی حالت میں ہے۔۔اسکی ماں یہاں موجود نہیں ہم ہر طرح سے پھنس چکے ہیں۔۔دادا جی نے انسے چوبیس گھنٹے کا وقت لیا کہ معاملے کو درست طریقے سے حل کیا جا سکے۔۔
پو پھٹتے ہی آپا کی آنکھ کھلی تو دیکھا اماں قرآن پاک پڑھتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کے رو رہی ہے۔۔اس نے حیرت سے ماں کو دیکھا دل میں بہت غصہ تھا۔۔
اماں ہن کیوں رو رئے او؟؟
اسکی جانوراں آر اتھے سٹ آئے تے ہن آپے رو رئے او۔۔اماں بولیں۔۔ایہو ایک آخری حل سی۔۔۔اس نے جان بوجھ کے ساڈے لئ اے سب کج کیتا۔۔اس توں سوا او وقت نئیں سی ٹلنا۔۔۔میں کدے زندگی اچ اتنی مجبور نہ ہوئ جتنی میں کل ساں۔۔جوان بچیاں۔۔شریکاں دا گھر۔۔بدمعاش مرد۔۔پر اج میں مجبور نئیں آں میں اپنے گھر آں تسی سب محفوظ او میں اپنی سوہنی لئ ہن لڑ مر جاساں۔۔۔
اماں ماموں کے گھر گئیں لینڈ لائن پہ ماموں کو کال کی گئ انہوں نے پہلی فلائٹ سے آنے کا وعدہ کر لیا اور اماں کو باقی ہدایات دیں۔۔
اماں اپنے بہنوئ کیساتھ علاقے کے سیاسی گھرانے کے بزرگ کے پاس چلی گئیں انکا فارم ہاؤس سوہنی کے گھر کے بالکل ساتھ تھا وہ ایک عرصے سے سوہنی کے ننھیال اور ددھیال کو جانتے تھے اور دادا جی کے سیاسی حریف بھی تھے۔۔۔انھیں ساری صورتحال سے آگاہ کر کے مدد مانگی گئ۔۔ ۔
دوسری طرف دادا جی کے گھر پہ لینڈ لائن بار بار بجتے۔۔۔خواتین کو کچھ سمجھ نہ اتی۔۔سوہنی کو گھر کے پچھلے حصے میں دادا جی کی بڑی بیٹی سنبھالے ہوئے تھی چاچی کا داخلہ وہاں قطعی ممنوع تھا۔۔سوہنی اب تقریباً ہوش میں لیکن خاموش تھی۔۔۔دادا جی اسکے پاس آئے
تیری اماں نے ہم پہ شکایت کر دی ہے۔۔ہو سکتا ہے یہاں پولیس آ جائے انھیں سب بتانا کہ تو نے تیزاب پیا ہے ہمارے متھے نہ مار دینا۔۔سوہنی خاموشی سے چھت کو دیکھتی رہی۔۔دادا جی بہت بارعب شخصیت کے مالک تھے پر سوہنی بچپن سے ان سے مانوس تھی کبھی انسے ڈر نہیں لگا تھا۔۔
اسکا کوئ جواب نہ پا کر وہ غصے میں دھاڑے۔۔
مجھے مجبور نہ کرو کہ میں انکی (سمدھی) کی بات مان جاؤں۔۔میں تمہیں گھر پہنچا دونگا یہ میرا وعدہ ہے تم مجھے اور میرے گھرانے کو اس معاملے سے الگ کر دو۔۔۔
تھوڑی دیر میں پولیس کے دو لوگ وہاں سول کپڑوں میں پہنچ گئے۔۔بیان کے لئے انھیں سوہنی کے پاس لایا گیا۔۔
اس نے بتایا بڑوں کے جھگڑے میں وہ ڈر گئ تھی اسے کچھ سمجھ نہیں آیا تو نادانی میں یہ حرکت کر دی۔۔اسمیں کسی کا کوئ ہاتھ نئیں۔۔وہ اب ٹھیک اور محفوظ ہے۔۔اس سے اماں کے نام ایک خط لکھوایا گیا جسمیں اسے اپنا یہی بیان دہرانے کو کہا گیا۔۔
اسکے بیان کے بعد دادا جی کا بیان شروع ہوا۔۔
انہوں نے کہا یہ لوگ اس لڑکی کا رشتہ کر کے مکر گئے ہیں۔۔کل اس بات پر کچھ تو تکار ہوئ تو پتہ چلا انکی اس رشتے کے لئے کچھ شرائط ہیں جو ناقابل قبول ہیں اس لئے نوبت یہاں تک آئ اور انھیں بلیک میل کرنے کے لئے لڑکی سے یہ حرکت کروائی گئ۔۔۔پولیس والے چلے گئے اور سوہنی کے لئے زندگی کا ایک نیا روپ اب سامنے آیا۔۔ اسے پتہ چلا اسکے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔۔اور اب وہ سب اپنی من مانی کر کے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔۔اسکے بیان میں رد و بدل کیا گیا ہے اور اسے اسطرح سے پیش کیا جائے گا کہ سب کو لگے کہ یہ سب اسکی رضا ہے لیکن اسکی اماں اس پہ راضی نہیں۔۔وہ ڈٹ گئ اس نے ٹھان لی کہ اب مر جانا ہے لیکن ان جھوٹوں کا اعتبار نئیں کرنا۔۔
اسے وارننگ دی گئی کہ چپ چاپ نکاح نامے کے کاغذ پہ سائن کرے جو ایک اسٹامپ پیپر جیسا کاغذ تھا۔۔اسکے سامنے جان بوجھ کر ایسی باتیں اور واقعات گھر کی خواتین کی طرف سے دہرائے گئے جنہیں سنکر وہ دہشت زدہ ہو جائے۔۔اسکا دل اندر سے پتے کی طرح کانپ رہا تھا لیکن بظاہر وہ مظبوط رہی۔۔جب کسی طرح وہ نہیں مانی تو اسکی زندگی کا وہ دور شروع ہوا جو آگے جا کر اسکے لئے اسکول کی کتابوں سے بڑھ کر ثابت ہوا۔۔۔
اسے گھر میں رکھے گئے شکاری کتوں سے ڈرایا گیا ۔۔بار بار اسکے سامنے پیپرز رکھے جاتے وہ انکار کرتی۔۔پھر ایک بار اسی کوفت میں دادا جی نے پاس پڑا لینڈ لائین اٹھا کے اسکے منہ پہ مارا اسکی ناک سے خون بہہ نکلا اور انکے سمدھی نے بے دردی سے سوہنی کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا گھر کی خواتین جب تک روکتیں تب تک وہ پندرہ برس کی بچی ادھ موئ ہو چکی تھی۔۔اسے پچھلے صحن میں بند کر دیا گیا رات شدید بارش اور طوفان آیا سامنے بندھے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں جنہیں دیکھ کے اسکا دل بند ہونے لگتا تھا۔۔۔۔ خالی پیٹ۔۔سوجا ہوا منہ اور کڑکتی ہوئ آسمانی بجلی جو عین اسکی آنکھوں کے سامنے چمکتی ہر بار اسکا دل بند ہو جاتا۔۔۔وہ رات سوہنی نے آسمان تکتے اللہ کو ڈھونڈتے گزاری۔۔کئ بار اسے لگا یہ اخری رات ہے وہ مر جائے گی۔۔پھر اسے نانا جی کی بتائ ہوئ ایتیں یاد اتیں وہ دہرانے لگتی پھر ابا یاد اتے تو رونے لگتی۔۔پھر سوچتی یہ سب کیوں ہوا ہے آخر کیوں۔۔پھر سوچتی اس سے برا کبھی کسی کے ساتھ نہیں ہوا ہو گا۔۔کیا سب لوگ جنکے باپ مر جاتے ہیں ان پہ زندگی یونہی یک دم نامہربان ہو جاتی ہے۔۔اگلی صبح اسکے ماموں اور تایا وہاں پہنچ گئے
تایا نے روتے ہوئے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔۔تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے میری اپنی بیٹی۔۔جھوٹ نہ بولیں تایا جی سوہنی نے انکا ہاتھ جھٹک دیا ایسا نہ ہو واقعی آپکی بیٹی میرے جیسی ہو جائے یہ تایا سے اسکی آخری ملاقات تھی۔۔شدید بخار میں گھر لایا گیا باقی تفصیلات اسے ہوش میں آنے پر آپا نے بتائیں کہ تمہارے خط میں لکھی
آخری لائن” کہ اماں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے” نے معاملہ انکے خلاف کر دیا کہ بچی حبس بے جا میں ہے ورنہ وہ کیوں ڈرتی۔۔۔اور دوسرا اس لسوڑے نے بیان دیا تھا کہ اسکا رشتہ طے نہیں ہوا تھا اسے تو رشتے کے لئے ہاں کی ہی نہیں گئ اسکے گھر والے اس بات کو انا کا مسلہ بنا کر زبردستی ایک لاچار بیوہ عورت کو تنگ کر رہے ہیں۔۔خاندان کے مردوں میں کوئ بھی اتنا مرد نہیں تھا کہ دادا جی کیساتھ دشمنی مول لے سکتا دونوں اطراف سے انتہائ خاموشی سے معاملہ نمٹا دیا گیا۔۔۔ابا کی سوہنی اپنے گھر پہنچ گئ۔۔آپا پوچھتی کیا صرف اسلئے یہ سب اتنی آسانی سے سہہ لیا کہ ہمارے ابا نہیں ہیں؟؟؟ ڈر نہیں لگا؟؟؟
سوہنی کہتی۔۔
آپا ایک بات سمجھ لو۔۔جو ہمارے باپ جیسے ہیں وہ ہمارے باپ نہیں بنیں گے۔۔ہمارے گھر میں کوئ مرد نہیں ہے ہمارا پلڑا کبھی بھاری نہیں ہو سکتا۔۔ہمیں اپنا بھار خود بنانا ہے۔۔
سوہنی کی واپسی کے بعد مظہر بھائ اور آپا کی رخصتی کی تیاری شروع ہو گئ اماں کا بس نہیں چلتا تھا کہ اس واقعے کے بعد سب بیٹیوں کو ایک ہی دن میں بیاہ دیں۔۔دوسروں کی میلی نظروں اور گھٹیا سوچوں نے ابا کی لاڈلیوں کے خواب چرا لئےتھے۔۔انہیں حق تھا کہ وہ معاشرے میں باوقار جئیں سر اٹھا کر چلیں لیکن انسے یہ حق چھینا جا رہا تھا۔۔۔!!!!
جاری ہے

(آج کی پوسٹ لکھتے ہوئے کچھ خیالات اور سوالات نے مجھے مسلسل سوچوں کے بھنور میں گھیرے رکھا۔۔)
اسمیں سے دو آپ کے لئے چھوڑے جا رہی ہوں۔۔
1.
کیا آج کی قسط پڑھنے کے بعد اپکو یہ خیال آیا کہ حالات ڈرامائی حد تک ابتر تھے۔۔؟؟سوہنی کے خاندان کے مرد تایا ۔ماموں۔چچا اسکی ڈھال بن سکتے تھے؟؟؟
2.
پچھلے ایک سال میں آپکے محلے،فیملی،دوست احباب کے ہاں بہت سے لوگوں کی وفات ہو گئ ہو گی۔۔کیا آپ نے کبھی ذاتی طور پر انکی نماز جنازہ کے بعد سے آج تک انکی بیوہ اور یتیم بچوں کی کبھی خیریت اور حالات دریافت کئیے۔۔؟؟؟

Related Articles

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button