Sohni Biography of Ayesha Chaudary

Episode 9 – last

سوہنی نے پرفیوم اسپرے کرتے ہوئے دیوار گیر آئینے میں ایک آخری بار الوداعی نگاہ اپنے سراپے پر ڈالی۔۔۔
سانول کب سے لاونج میں بیٹھا اسکا منتظر تھا
یہ انکی شادی کا چوتھا روز تھا دو دن پہلے انکی شادی کی تقریبات ختم ہوئیں تھیں۔۔۔
سانول تک پہنچنے کے لئے سوہنی کئ دریا پار کر کے آئ تھی۔۔۔
لیکن یہ آخری دریا سانول نے خود کچے گھڑے پہ پار کر کے سوہنی کا ہاتھ تھاما تھا۔۔۔
انکی پہلی ملاقات حادثاتی طور پر سانول کے آفس میں ہوئ تھی۔۔
اس پہلی ملاقات میں ہی سانول جانتا تھا کہ وہ اس لڑکی کو پہلے سے دیکھ چکا ہے اور صرف دیکھا نہیں ہے اسے ڈھونڈھتا بھی رہا ہے ۔۔کھوجتا بھی رہا ہے۔۔۔
سوہنی سانول کو دیکھتے ہوئے سوچتی رہی
یہ بہت جانا پہچانا چہرہ ہے کہیں بہت پہلے بچپنے میں اس چہرے سے کوئ شناسائی نکلتی ہے لیکن بیچ میں اتنی دھند ہے کہ نظر پار نہیں جاتی۔۔۔
پہلی ملاقات لمحوں کی تھی۔۔۔ختم ہو گئ۔۔۔
پر سانول کی کھوج شروع ہو گئ ۔۔
سوہنی اور سانول ایک ہی بلڈنگ میں ملازمت کر رہے تھے۔۔۔
اور دونوں ہی اپنے شہر اپنے گھر سے کچھ دور ایک قصبے میں آتے جاتے تھے۔۔۔
اب سانول روز سوہنی کو دیکھنے کے لئے اپنے آفس سے لیٹ ہونے لگا ۔۔۔
کبھی صبح جاتے ۔۔۔کبھی شام میں آتے دونوں دریا کیساتھ دو الگ کناروں کی طرح چلتے رہتے۔۔۔
سانول کو ٹالنا بھی آسان نہیں تھا
وہ بے انتہا خوبصورت شخصیت کا مالک تھا۔۔۔اسے ایک بار ملنے والا اسکا مداح ہو جاتا۔۔۔
لیکن یہاں معاملہ مختلف تھا۔۔۔سوہنی نے خود پہ خود پابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔۔۔اسکے پاس محبت،پیار،ریلیشن شپس جیسی فضولیات کے لئے کوئ گنجائش اور جذبہ نہیں تھا۔۔۔
وہ جذبات سے عاری مٹی کی حسین مورت تھی
اور سانول جذبات سے معمور جام تھا اس نے بہت مستقل مزاجی سے پیش قدمی جاری رکھی۔۔قطرہ قطرہ وہ پھوار کی صورت سوہنی کے پتھر دل پہ برستا رہا۔۔۔
ایک سال۔۔۔پورا ایک سال لگا ان دونوں کو یہ جاننے یہ ماننے اور یہ سمجھنے میں کہ یہ کشش معمولی یا یک طرفہ نہیں ہے۔۔۔
یہ وہ تعلق ہے جو بہت اندر کہیں اگ آیا ہے۔۔۔
وقت گزرتا رہا وہ ایک دوسرے کو پرت در پرت جانتے اور سمجھتے رہے۔۔۔
وہ دونوں زندگی کی چکی میں پس کے یہاں تک آئے تھے انکے جذبات بچگانہ یا سطحی نہیں تھے۔۔
لیکن اب بھی ایک بہت بڑی بیڑی انکا رستہ روکتی تھی۔۔۔
سماج کے قاعدے۔۔۔
زمانے کا چلن۔۔۔
وہ اس دنیا کے باسی تھے جہاں عورت کی پہچان اسکے بابل کا نام۔۔۔اسکی شخصیت کی خوبصورتی ۔۔۔اسکے کردار کی مظبوطی اور اسکے زندگی گزارنے کے ڈھنگ سے ہٹ کر تھی۔۔۔
یہ معاشرہ ایک پینتیس سالہ خود مختار مرد کو جو خوبصورت ہو ،وجیہ ہو،قابل ہو کس اٹھارہ بیس سال کی لڑکی سے شادی کرنے اور شادی کے محض ایک ہفتے بعد طلاق دے دینے پہ برا نہیں کہتا ۔۔
لیکن یہ معاشرہ اسی پینتیس سالہ مرد کو چھبیس ،ستائیس سالہ بیوہ عورت سے شادی کا فیصلہ کرتے ہوئے سوالات سے چھید کے رکھ دیتا ہے۔۔۔!!!
سانول جانتا تھا یہ آسان فیصلہ نہیں ہے۔۔۔
اسکے گھر میں اس فیصلے کی آواز پڑتے ہی ایک قیامت کا سماں بندھ سکتا تھا۔۔۔خاندان کی دس لڑکیاں اسے روز انگلیوں پہ گنوائ جاتی تھیں جن کے گھر والے ایک بار اشارے کے منتظر تھے۔۔۔
سانول پہلی بار سوہنی کی خوبصورتی اور اعتماد سے متاثر ہوا تھا لیکن ہر گزرتے دن کیساتھ وہ سوہنی کو جانتے ہوئے یہ مان رہا تھا کہ یہ وہ لڑکی ہے جسکی اسے تلاش تھی۔۔۔
اسے ذہین لوگ پسند تھے۔۔۔اسے خود مختار عزت نفس رکھنے والے لوگ پسند تھے۔۔۔ اپنے کیرئیر میں اسکا سامنا ہر طرح کی لڑکی سے ہو چکا تھا وہ سوہنی کو ہر پیمانے پہ مکمل پاتا تھا لیکن یہ سب وہ کسی اور کو سمجھا پائے یہ ناممکن تھا۔۔۔
دوسری طرف سوہنی زندگی میں پہلی بار اپنے ابا کے بعد کسی ایسے شخص کو دیکھ رہی تھی جان رہی تھی جو محبت اور عزت سے مالا مال تھا۔۔۔
اسے سانول کی محبت پہ کوئ شک نہ رہا تھا پر وہ جانتی تھی اسے زمانے کے ترازو میں تولنے والے اسکی عزت نفس کو مجروح کرینگے۔۔۔
مسلسل ایک دوسرے کو سوچنے اور نظر انداز کرنے کے چکر میں وہ مستقل ایک دوسرے کی ذات کے حصار میں قید ہوتے جا رہے تھے۔۔۔
بالآخر سانول نے زمانے کی ہر اس سوچ اور چلن سے ٹکرانے کا عزم کر لیا جو اسے سوہنی کو اپنانے سے روکتی تھی۔۔۔
یہ آسان نہیں تھا لیکن ایک خالص مرد کے لئے یہ ناممکن بھی نہیں تھا۔۔
اماں سے سوہنی کا ہاتھ مانگتے ہوئے اس نے قسم کھائی وہ سوہنی کو ایسے ہی بیاہ کر لیجائے گا جیسے سوہنی کا حق ہے۔۔۔
سوہنی کے ہاتھوں پہ سانول کے نام کی مہندی لگ گئ۔۔۔اماں وسوسوں اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں آدم اور سوہنی کی بلائیں لیتیں۔۔۔
سج دھج سے سوہنی کی بارات آئ۔۔۔خوشبووں اور ستاروں کی پالکی میں بیٹھ کر سوہنی سانول کے آنگن میں اسکی خوش نصیبی بنکر اتر آئ۔۔۔سانول نے اسے اس چاؤ اس محبت سے اپنایا کہ بات کرنیوالوں کو بات کرنے کو نہ ملتی۔۔۔
وہ خود اپنا مکمل تعارف ہیں۔۔۔
وہ ساتھ بیٹھتے ہیں تو محفل انکے نام ہو جاتی ہے۔۔انکی ایک دوسرے کے لئے محبت کبھی کم ہونیوالی نہیں کیونکہ انہیں ایک دوسرے کی ذات سے محبت تھی۔۔۔
وہ جانتے تھے انکے جسموں کی تشکیل کے وقت انکی مٹی آپس میں گھل مل گئ ہے۔۔۔
بہت پہلے دور آسمانوں پہ انکی روحیں ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا رہی تھیں۔۔۔
سوہنی ہمیشہ سوچتی سانول اسکے بابا کی اسکے لئے مانگی گئ وہ دعا ہے جسمیں وہ اسے اپنا نعم البدل سونپ گئے تھے۔۔۔آدم باپ کے لمس اور تعارف سے نا آشنا تھا۔۔۔
سانول نے اسکے سر پہ محبت سے ہاتھ رکھا تو سوہنی اپنی یتیمی کے ان دنوں کو یاد کر کے پھوٹ پھوٹ کے روئ جب وہ اپنے بابا کے لمس کو روٹی سے زیادہ ترستی تھی۔۔۔!!!!
سوہنی اور سانول اسی دنیا کے کسی کونے میں آباد ہو گئے ہمیشہ ہنسی خوشی رہنے کے لئے۔۔۔۔!!!
ہر لڑکی اپنے بابا کی شہزادی ہوتی ہے۔۔۔بہت سی لڑکیاں جو شہزادیاں تھیں۔۔۔شہزادیاں ہیں دکھوں کی چادر میں لپٹی وقت کی تیز رفتاری میں کہیں کھو گئیں۔۔۔
کسی لڑکی کی پوری زندگی صرف اس لئے متاثر ہو جاتی ہے۔۔۔بدل جاتی ہے۔۔۔ختم ہو جاتی ہے کیونکہ اسے تحفظ دینے والا۔۔۔اسے سراہنے والا۔۔۔اسے بچانے والا اسکا باپ موجود نہیں رہتا۔۔۔
اسی لڑکی کی زندگی میں دوسری اہمیت اس شخص کی ہوتی ہے جو اسے ساتھی کے طور پہ اپناتا ہے۔۔۔
ہر ایسی لڑکی اپنے سانول سے اپنے لئے اپنے بابا جیسے خالص پیار کی تمنائ ہوتی ہے۔۔۔سارے زمانے کے درد اٹھا کر جب وہ کسی محبت والے کو اپنا پاتی ہے تو وہ دوبارہ وہیں سے تعمیر ہوتی ہے جہاں یتیمی نے اسے نامکمل کر چھوڑا تھا۔۔۔
ایک عام انسان اور کسی یتیم بچے کی زندگی دو مختلف دنیاؤں کی زندگی ہے۔۔۔کبھی کبھار اپنی زندگیوں سے نکل کر کسی بیوہ۔۔۔کسی یتیم کی زندگی میں جھانکئے۔۔۔
دوسرے ہمیشہ اپکی معاشی مدد کے محتاج نہیں ہوتے ہیں۔۔۔
دکھوں اور تکلیفوں میں زندگی گزارنے والوں کو بہت بار مظبوطی کے گولڈ میڈل اور بہادری کے تمغے کے بجائے صرف ایک دلاسہ ایک حرف تسلی درکار ہوتا ہے۔۔۔

Related Articles

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button