لکھ یار

magnet ممتاز مفتی . .فرحین چودھری

”  اب چلو بھی رک کیوں گییں ؟” صباح مفتی کی آوازمجھے کہیں دورسےآتی ہویی محسوس ہویی. میں اوردھوپ شیشوں سے چپکی کھڑی تھیں ،حیران ششدر.فیروزی قالین پرایک چھوٹا نمدہ نما رگ بچھا تھا اوروہ source  of energy موجود تھا جس سے ہم دونوں ہی خا یف تھیں .میں اپنی کم مایگی

کی وجہ سے اوردھوپ شاید اس شعلے کی حدت کو محسوس کرتے کرتے ٹھنڈی پڑ رہی تھی  .شیشے کا دروازہ کھلا ہم دونوں  نے قدم  بڑھا یے. سفید بالوں کی ٹوکری اٹھایے ایک  سراوپراٹھا ” ارے یہ ہیں ممتاز مفتی ” ؟ مجھے مایوسی سی ہویی.  .تعارف ہوا مفتی جی آٹھ کر صوفے پرچوکڑی مارکربیٹھ  گیے .میں سامنے والے صوفے پر ٹک گیی. ایک  ٹین ایج طالبہ، ایک  نو آموز لکھاری کے طورپر.ان کی آنکھوں میں معصوم  سا تجسس تھا . ہونٹوں پر شرارتی سی مسکراہٹ بچوں  والی  curiosity  جو کسی نیی چیزکو دیکھ  کر چھلکتی  ہے” تو آپ  مجھ  سے متاثر ہیں سیکھنے آی ہیں ”؟  لہجہ شوخ تھا مگر تکبرکے بغر .میں نے بے اختیا رکہا ” نہیں ” .ایک عجیب سی چمک ابھری آنکھوں میں ” بس آپ سے ملنا چاہتی تھی لبیک  پڑھنے کے بعد ” وہ مسکرایے چہرے پرمزید چمک آیی،.پھر وہ چمک بڑھتی چلی گیی .فیروزی قالین ، سنہری  گراموفون ، دیوارپرلگی مفتی جی کے مجسمے کی تصویر. سب کچھ  ایک جھماکے کی نذرہوگیا ،جن بوتل سے باہرآ چکا تھا .الفاظ کی جذبوں کی جنوں کی ایک پھوار تھی . میں بھیگتی  رہی سکڑتی گیی حتی کہ زمین سے جا لگی .مڑکر دیکھا تو دھوپ بھی فرش  پر رینگ  رہی  تھی .” میگنٹ ایکٹو” ہوچکا تھا .( اس ملاقات اورپھرمرے بارے میں خاکہ مفتی جی کے قلم سے ان کی کتاب   ” اوکھے تے آولڑے ” میں ” بلبلے” کے عنوان سے موجود ہے جو انہوں نے میری کتاب ” سچے جھوٹ” کےلئے لکھا تھا ( تب میں شہابہ گیلانی تھی ) ..

مفتی جی کے وجود میں چھپے مقناطیس کے حصارمیں جو بھی آیا بچ  نہ سکا .تھوڑا زیادہ متاثر ضرورہوا .کسی کو لکھاری  نے پریشان کیا ،کوئی  نفسیات دان کے ہاتھوں چت ہوا .کویی ہومیو پیتھک کا ا سیرہے تو کوئی سادھوکے چرنوں میں بیٹھا  مست جھوم  رہا ہے .دن رات عجب  تماشا ہے .سبھی لوہ چون کی مانند مقناطیس کی جانب کھنچے چلے جا رہے ہیں .کچھ  دہر  توبوکھلایی رہی ،پھرمیں نے بھی گرومرشد کا نعرہ  لگایا اور’متاثرین ممتازمفتی ‘ میں شامل ہوگیی .عجب کہانی تھی اسلام آباد  کے برگ ٹایپ سیکٹر کےایک گھرمیں ایک سادہ سے بیڈروم میں ایک بظاہرانتہایی  بےکشش ،بےترتیب سا شخص بسترپرہو   اوراس کےگرد ہرعمرہر رنگ ونسل کے لوگوں کا میلہ لگا رہتا ہو.خاص طورپرخواتین اور لڑکیوں کا .یہ مفتی جی کا ” ڈھابہ ” تھا..

بہت کچھ  کہا گیا ،مفتی جی کی گوپیوں کے قصے، ان سے دور رہنے کے اشارے .احساس ہوا کچھ تو ہے کہ رکاوٹیں کھڑی   کی جا رہی ہیں .شاید گزرجانے یا پہنچ  جانے کا خدشہ ہے ؟  سو خود دریافت کی ٹھانی.انہیں define  کرنے کی کوشش کرتی ہوں تو کوئی خاکہ کوئی  ہیولا بن نہیں پا تا .بس  روشنی کی لہروں کا ایک  سیلاب  ہے جس نے میری روح کا احاطہ کرلیا  . .ان سے میری وابستگی  کی شدت آج  بھی وہی  ہے .مجھے مفتی جی پرکوئی تحریر لکھنا مشکل ہوجاتی ہے .شاید اس لئے کہ   محبت  اورعقیدت میں تول کے ترازو بیکارجاتے ہیں .تجزیے انصاف وغیرہ  یہاں کام نہیں آتے .عقیدت والی آنکھ  پر پردہ ہوتا  ہے .جس سے محض اجالا ہی چھن چھن کرآنکھ  تک پہنچتا ہے .مفتی جی تو میری سہیلی میری ماں میری بہن  اور مرے گرو  تھے .ان کے بعد بھی اس گھر پران کا وجود چھایا رہا .وہ گیٹ،وہ لان ، وہ فیروزی قالین ،  وہ جگہ جہاں دومورگھومتے تھے    اورمفتی جی چارپایی ڈال کردھوپ سینکتے تھے سردیوں میں .وہ  پلنگ جس کے ساتھ قدرت الله  شہاب کی تصویر تھی ، سب کچھ بدل گیا .لیکن جانے کیوں آج بھی وہ راستہ ..وہ گھراس  کی ہر اینٹ میرے گرو کی جکڑ میں  محسوس  ہوتی ہے .وہ  ایسے  ہی  تھے کسی  radiation کے ذریعے جکڑ لینے والے .گوشہ  نشینی میں بھی نمایاں .خود کو سمیٹنے کی کوشش میں پھیلتے  جاتے .ایک  طلسم تھا جس کا فسوں آج بھی قایم  ہے .اپنے افسانوں میں جس نرتکی کا  ذکر کرتے رہے ، وہ نرتکی کہیں خود  ان کے اندرچھپی بیٹھی تھی .سب  کو لبھانے کے ڈھنگ  سے واقف وہ مردانہ جسم عورت کے خمیرسے گوندھا گیا  تھا  .عورتوں  کے رازدار،کلیسا میں ایستادہ کنفیشن کارنر ،ایسا سیاہی چوس جوہرسیاہی اپنے اندرجذب کر لے ..ہر دکھ  بانٹ  لے    پراس کے آنسوکب بہتے ہیں کس کے آگے بہتے ہیں ؟ شاید کوئی نہ جان پایا  . . .

یادوں کی پٹاری میں ڈھیروں رنگ برنگی کترنیں ہیں کسے دیکھوں کسے چھوڑوں  ؟

‘ لبیک ‘ میں بتایی گیی  کالے کوٹھے والے کی ادامفتی جی نے بھی تھوڑی سی اپنا لی تھی .ہرذات کی انا کوغبارہ بنا کر پھلا  دیتے ،چھت سے لگا  دیتے.ہرکوئی ان کے ” ڈھابے” سے یہی  گنگناتا  نکلتا ‘ میں ہی ہوں بس میں ہی ہوں ”.اپنی ذات کی گڑوی سے کالا پن نکال نکال کرسب کو دکھانا ان کا پسیندیدہ  مشغلہ تھا .کسی اجلے پن کو چھپانے کی ناکام کوشش میں شاید ؟!!!

   یہی سب کچھ انہیں ممتازکرتا ہے .جبکہ کیی دوسرے ستایش کے شیرے میں لتھڑے خود ہی اپنے وجود کوچاٹ چاٹ کرایک ہی  مقام پررک گیے یا مٹ  گیے .مفتی جی عورتوں کی سہیلی  تھے. ان کے اندر ممتا میں لتھڑی ایک  بھرپورماں زندہ  تھی .ان   کی ذات پراپنی ماں کے دکھوں کا عکس بہت گہرا تھا ،جس کا اظھار”علی پورکا ایلی ” میں موجود ہے .عورت کے زخموں کا ادراک تبھی ہوا انہیں ،عورت سے ہمدردی کا بیج  اسی زمانے میں ان کے دل میں پھوٹا .وہ  دھیرے دھیرے ہر دل کے زخموں کو ممتا کے میایکروسکوپ  میں  دیکھ  کر انسانیت کے ٹانکے لگاتے اورخلوص کا مرہم  رکھتے جاتے .ان کی اس محبت  اس  خلوص کو بہت سے ادبی بونوں نے کیش کیا  اپنے قد بڑھانے کو  .. .

مفتی جی اور قدرت الله شہاب  کے باہمی تعلق  پرمیری ان  سے بحث  رہتی تھی .میرا موقف تھا  ” شہاب صاحب ایک  کور  سٹوری ہیں ، شہ سرخی ہیں ، خبر کی جانب اشارہ .اصل خبراصل کہانی تو وہ ہے جوخود بظاہرکیچڑ میں لت پت،.کیچڑ سے  بھرے وجود صاف کیۓ جا رہا ہے . شہاب صاحب تو وہ sponge  ہیں جو آپ کی شدت کو جذب کرتے رہتے ہیں ”

مفتی جی کا سفید بالوں بھرا سرمتواتر”نہ ” میں ہلتا رہتا لیکن ان کی آنکھوں میں  لپکتی آگ کچھ اور  r

 ہی کہتی .بقول کچھ  لوگوں  کے مفتی جی شہاب صاحب کے پروموٹر تھے .نہیں! وہ تو خود کو چھپانے کی کوشش میں  تھے ، دھیان  بٹا  رہے تھے سب   کا ،الایو کی تپش سے گبھرا کر سب کو ٹھنڈے  پانیوں کی جانب  دھکیل  رہے تھے .پر شعلے تو شعلے ہیں جس کا دامن  پکڑ   لیا سو پکڑ لیا.

ان کی تحریریں ان کی کہانیوں کے کردار، ان  کے گرد بکھرے genuin  لکھاریوں کے کردار، سبھی ان شعلوں میں گھرے نظر  آتے ہیں .کہیں  جسم  جل رہا  ہے تو کہیں  روح .کہیں انسانی  محبت  بخار بنی  ہے  تو کہیں الله  میاں روگ بنا چمٹا  ہے    .ہر جانب  بھڑکن  تھی  تپش  تھی .جس  نے انہیں  بے قرار رکھا اور ان کے چاہنے  والوں کو حرارت  بخشی

جن دنوں بہت بیمار تھے میں نے کہا ” الله آپ کوصحت دے ” تو فورا بولے

آنکھوں کی مخصوص چمک کے ساتھ ” کڑیے میںوں بد دعا نہ دے” پھر بات بدل دی ” ہن رج گیا وان ایتھوں ”

میں نے کہا ‘ آپ کے چاہنے والے تو نہیں رجے آپ سے ‘ تو بات ٹالگیے   .

زندگی کی دعا بددعا کیوں تھی ان کےلئے ؟ یہ توتب سمجھی جب ان کےانتقال پروصیت کے مطابق  قوالی  کا انتظام  تھا  ”وصال ” کی خوشی  میں

بہت سال پہلے ان پرایک خاکہ لکھا تھا جو’ نوایے وقت’ کے ادبی صفحے پرچھپا تھا ” اسی سالہ بچہ ممتازمفتی” گمان تک نہ تھا کہتیرہ سال بعد یہ بچہ بوڑھا ہوکرسب کوخوشیاں منانے کا کہ کرچل پڑے گا.جانے کیا گرتھا اس گرو میں کہ ان کے بعد کوئی   اس مقام پرجچتا ہی نہیں

مجھے یاد ہے مفتی جی نے”الکھ نگری ” صباح کے ہاتھ یہ کہ کربھجوایی ” لے شہابہ دے متھے مارجا کے ” ( میرا پیدایشی  نام جو بدل چکا  ٢٠٠١ میں )

انہیں معلوم تھاشاید کہ”متھے”ہی لگا لوں گی.وصولی کے بعد میں نے فون کیا کہ اس کتاب کوایک ہی رات میں پڑھ ڈالوں گی کہنے لگے” توں اینوں چھلیں گی پڑھیں گی نیں” میں نے کہا” گھوٹ گھوٹ کربوند بوند پیوں گی’

پھر ہوا یوں کہ چار دن اورچارراتیں  میں لگاتار ا لکھ نگری کے lybrinth میں گم رہی .جانے  کیسے راستے تھے گول چکر    زینے موڑ،میں چلتی رہی  کوئی مجھ سے باتیں کرتا رہا مسلسل انہونی  سی، کھری کھری ،رنگین ،سادہ .کبھی  سرگوشیاں   کبھی نعرے کبھی اوٹ سے کبھی سامنے آ کر.میں ایک سحر میں تھی ” الکھ نگری” مجھ  سے مخاطب  تھی اپنی  کم مایگی کا  احساس ہونے لگتا تو اس سے انگلی چھڑا کرادھرادھر تاکنے لگتی. لیکن پھرکوئی میرا ہاتھ تھام لیتا اورمیں پھر”الکھ نگری ” کے لنرنتھ میں کھوجاتی .کچھ ایسے  ہی احساسات  تھے جب میں نے مڈل کلاس میں ” لبیک” پڑھی تھی. نہ شعورتھا نہ سمجھ . بس کتابیں  پڑھنے کا شوق تھا ، جنوں  تھا ”لبیک ” نے بہت رلایا  تھا اس وقت، آج بھی رلاتی  ہے .اس  کتاب کو پڑھ  کر شدّت سے خواہش کی تھی کہ ان دونوں  ہستیوں  سے ملوں .کوئی  قبولیت کی گھڑی  تھی  کہ دونوں سے ملی بھی بہت  کچھ  سیکھا اور بھرپور توجہ بھی حاصل ہویی” لبیک ” بذات خود ایک ایسا  لفظ  ہے ایسا عمل  ہے جوجھنجوڑ کررکھ  دیتاہے ، ہڈیاں  چٹخا  دیتا ہے ، روح کی گت بنا دیتا ہے ،اندر باہر پھینٹ کررکھدیتا ہے

”الکھ نگری ” ختم کرکے ملی تو میں نے کہا ” مفتی جی یہ کتاب آپ کا ماسٹر پیس ہے”

بچوں سی اپنی مخصوص قلقاری کے ساتھ  بولے” تمہارا کیا خیال  ہے اب میں مرجایوں گا ”؟

 میں  نے کہا ” الله نہ کرے لیکن شاید اب آپ ایسی کتاب دوبارہ نہ لکھ پائیں”

وہ اچانک ہی خاموش ہو گیے اور موضوع بدل دیا

میری خوش قسمتی کہ قدرت الله شہاب کی لایبریری میں اس وقت ان کے پاس بارھا بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا. جب وہ ” شہاب نامہ” لکھ  رہے تھے اور یہ بھی اصل میں مفتی جی ہی کا فیض تھا.ایک دن باتوں باتوں میں پاکستان کے حوالے سے بات  ہو رہی تھی ، میری ٹین ایج  تھی اور جذباتی پن زیادہ  تھا ،شہاب صاحب  کہنے لگے ”  بیٹا کیوں پریشان ہوتی ہوجس نے یہ ملک   بنایا  ہے  وہی اس کی حفاظت  کرے گا ” میں نے پوچھا،” آپ اتنے پریقین کیسے ہیں ،”؟ تو مسکرا کراپنے دھیمے انداز میں   کہنے لگے ،” اسلئے کہ پاکستان امام مہدی کی سیٹ  بننے کو قایم ہوا ہے ” میرے لئے تو بہت بڑا  انکشاف تھا .مفتی جی کے پاس پہنچی ، سا ری بات بتای .خلاف امید مفتی جی گم سم سے ہو گیے سوچ  میں پڑگیے .بستر پر درازانہوں نے نظریں چھت  پرجما لیں.پراسرار گھمبیرلہجے میں بولے ” پتہ نہیں الله جانےکہتے تو مجھے بھی یہی ہیں ”

اس کے بعد ہزارکوشش کے با وجود میں ان دونوں سے مزید کچھ نہ اگلوا سکی .ہاں البتہ” الکھ نگری” میں کالا شاہ کاکو والے  بابا کی مفتی جی سے باتوں کی تصدیق شہاب صاحب  نے ایک  بار ضرور مرے سامنے کی تھی. پھر بہت سے ذاتی مشاہدات   سے اندازہ  ہوا کہ یہ دونوں ‘ بابے ‘ اور ان  کے معا ملات عقل اور دنیا داری کی حدود سے پر ے ہیں .

منافقت سے پاک مفتی جی کے بارے  میں کچھ  معصوم ناسمجھ ایسے الفاظ  کہتے ہیں کہ .. ..کیا کہیں افسوس ہوتا  ہے .مفتی جی کو ” ٹھرکی” بھی کہا گیا .اگرعورت کواس کی” اپنی اورحقیقی”صلاحیتوں کا احساس دلانا ” ٹھرک ‘ ہے ،اسے سراہنا  ٹھرک ہے ،اسے معاشرے میں سراٹھا کر چلنے کی ترغیب دینا ٹھرک ہے تو مفتی جی کو سلام .شاید لوگ انہی سے خوش ہیں جو صرف راتوں رات شہرت کی شوقین خواتین کوچند حروف لکھ  کر دیتے  ہیں وآہ واہ  کرواتے ہیں ” .قیمت” وصول کرتے   ہیں اور جلد ہی دوسری” گاہک ” پرتوجہ کرتے ہیں .ان بیچاروں  کی عقل جسم  کےجا ل سے باہردیکھ  ہی نہیں سکتی.مفتی  جی سے   ١٣ برسوں کی فیضیابی ،ان کے گھ میں بیٹی  کی حثیت  سے ،ایک مقام  نے مجھے بہت کچھ سکھایا  اوران کے بارے میں سمجھایا . وہ ہرعمرہرشکل ہر ذہن کی عورت  کے اندر کے کومپلکسس کو باہرلانے  کی کوشش کرتے تھے ،ایک دوست ایک نفسیات دان کی طرح کہ انہوں  نے انگریزی اور نفسیات میں ایم اے کیۓ ہویۓتھے. کچھ  ان کے بچپن کا ردعمل  تھا  انہوں  نے اپنی ما ں کو ہمیشہ ایک  ستی ساوتری کے روپ میں دیکھا جو خاوند  کے ہر ظلم  کو سینے پر اعزاز سمجھ کر سجاتی  رہی ،خود کو کمتر سمجھتی  رہی .مفتی جی کو شاید اس مظلوم  کردار سے چڑ تھی ” علی پور کا ایلی ” میں یہ کش مکش یہ بغاوت ،ایلی  کا کردار واضح  کرتا ہے .جو باپ کی دوسری بیوی سے اور باپ  سے  بیک وقت  متاثر بھی تھا اور نفرت بھی کرتا  تھا.شہرزاد  کے لئے ایلی کا پاگل پن

 اس  لیے تھا کہ وہ ایک ‘ زندہ ” عورت تھی .اپنے وجود

 اپنی

 خواہشوں اپنے خوابوںمیں زندہ  رہنے والی عورت ،جسے  مظلوم کہلوانے کا کوئی شوق نہ تھا . مفتی جی  نے اپنے گھرانے  میں اپنی بیوی ، بیٹیوں حتیکہ بہو کو بھی وہی حقوق، وہی احترام،وہی عزت دی جو کسی بھی ذی روح  کوانسانیت  دیتی ہے  .مفتی جی کے افسانے عورت کوبحیثیت  انسان ہی ٹریٹ کرتے ہیں.حوصلے والی بہادرعورت ان کی آئڈیل  ہے”.ان کی تحریروں  میں عورت کو نفسیاتی انداز میں ٹریٹ کیا گیا ہے .اس کی آنا، اس کے مقام کو بلند  کرنے  کی کوشش نظر آتی  ہے. یہاں   صرف چند حوالے دینا چاہوں گی

”گڈی کی کہانی ”کے کچھ  افسانوں کے کچھحوالے مرے نکتہ نظرکو واضح  کرتے  ہیں .افسانہ کند ، انوولومنٹ،  منیر اور  منیرہ ، گنگو،عورت  ذات  کے اندر اتر کر سوچی  سموچی  کہانیاں  ہیں  جو میرے اس بیان  کی تصدیق  کرتی  ہیں کہ مفتی  جی کا باطن عورت  کے خمیر سے گوندھا گیا  تھا .عورت  کی روح  کو پرت پرت  مثبت انداز میں کھنگالنا اس کی گہرایی تک جانا عام  مرد کےبس کی بات  نہیں ‘

گنگو ”

. …. ” سلطانہ نے حقارت سے اس کی ہوس سے پھولی ہوی آنکھوں کی  طرف  دیکھا ، اس کے لٹکے  ہویے  ہونٹوں  سے گویا  رال  ٹپک  رہی  تھی .سلطانہ کی نگاہ کی گرمی سے وہ تلملا اٹھا اور کیڑا بن کر رینگنے لگا  کیوں ؟ سلطانہ  کے دل کی گہرایوں  سے چیخ اٹھی  کیوں وہ  اپنی انفرادیت  کھو بیٹھتے  ہیں جس کی وجہ  سے وہ  محبوب  ہوتے ہیں ؟  ”

اسی  طرح” انوولومنٹ ” ایک  تسشنہ روح  کی داستان  ہے  جسے  جسم  کے صحرا میں  اکیلا چھوڑ دیا  گیا  تھا  ، ” بیگم  جاہ کی پرسنالٹی الله کی دین نہ  تھی  جو بن مانگے  ملتی ہے .اس  نے  زندگی بھر مسلسل  محنت  سے  ایک ایک  اینٹ چن  کر  اپنی  پرسنالٹی  کا ابوالہول تعمیر کیا تھا. شادی  کے بعد  اس کے سر پر ایک دم بیگم  بننے  کی مصیبت آن پڑی تھی  اور بیگم  بننے  میں نسایت  حایل تھی ،بری  طرح  حایل  تھی .چونکہ  ںسایت تو خاص انویلومنٹ  ہوتی ہے اندھی  انوولومنٹ ، ںسایت  کو چھپانے اور رد کرنے  میں بیگم جاہ  کو بہت  محنت  کرنا پڑی تھی ”

یہ اقتباسات  میں نے اپنے خیالات  کو بریک  لگانے کو بیان  کیے  ورنہ شاید  میں لکھتی  چلی جاتی . مفتی جی  پر لکھنا  بہت مشکل  بھی ہے اور آسان  بھی، کم ازکم  مرے لئے !

Related Articles

One Comment

  1. بہت خوب۔ ممتاز مفتی کی سحر انگیز شخصیت پر لکھا گیا یہ مختصر خاکہ نہ صرف زبان و بیان کے حوالے سے لائق تحسین ہے بلکہ اس سے مفتی صاحب کی شخصیت کے ایسے گوشوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جو منفرد بھی ہیں اور دلکش بھی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button