Talash by Mumtaz Mufti

کتاب : تلاش

باب 6 : یہ خدا ، وہ خدا

ٹرانسکرپشن : سعدیہ درانی

انوکھا لاڈلا


اس وقت آدھی رات کا وقت تھا۔ چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ ہم دونوں اکٹھے بیٹھے تھے ۔ میں پوچھ رہا تھا ، وہ مسکرائے جا رہا تھا۔
دفعتاً فضا میں ایک آواز بلند ہوئی:
“انوکھا لاڈلا ، کھیلن کو مانگے چاند رے ، انوکھا لاڈلا !
مجھے ایسے لگا جیسے میرے سوال کا جواب مل گیا ہو ۔ میں نے اس کی جانب دیکھا ، وہ مسکرا رہا تھا ۔
اس کی مسکراہٹ میں اثبات کی چمک تھی ۔
پھر ڈاکٹر غلام مرتضی میرے سامنے آ بیٹھا۔ بولا ” حیران کیوں ہوتے ہو، یہ کوئی بھید تو نہیں ۔اس کا تو وہ خود اعلان کر چکا ہے ۔ وہ اپنے لاڈلے کو لاڈ لڈا رہا ہے ۔
“اس لاڈلے کو اللہ نے بڑی عزت دی ہے ۔ اللہ نے اس لاڈلے میں اپنی روح پھونک رکھی ہے ۔اللہ نے کائنات کو اس لاڈلے کے لیے مسخر کر دیا ہے ۔ فرماتے ہیں ” ہم نے اسے کائنات کا اختیار بخش رکھا ہے ۔”
میں حیرت سے غلام مرتضیٰ کی طرف دیکھ رہا تھا ۔
اتنا اونچا مقام ، اتنی بڑی بخشش!
آپ غلام مرتضٰی کو تو جانتے ہوں گے ۔ وہی جو ٹی وی پہ آتے ہیں ۔ چینی داڑھی، لمبا چہرا، سر پہ ٹوپی ٹھیٹھ مولوی۔ جب میں نے پہلی بار انہیں ٹی وی پہ دیکھا تو مجھے بڑا غصہ آیا۔ تو یہ ٹی وی والے ایک اور مولوی کو ڈھونڈ لائے ہیں ۔ ان پڑھ، پرائمری پاس ، چہرے پر ذرا ذہانت نہیں۔ لوگ پہلے ہی ہمیں فنڈامنٹلسٹ کا طعنہ دیتے ہیں ۔
پھر جب وہ بولنے لگا تو میں حیران رہ گیا ۔ ارے یہ ہونٹوں سے تو نہیں بول رہا ۔ یہ تو دل سے بول رہا ہے ۔ اس کی بات میں ڈانٹ ڈپٹ نہیں ، انداز میں مولویانہ کرختگی نہیں ۔ اس کی آواز میں تو درد ہے۔ اللہ سے ڈراتا نہیں ، اس سے محبت کرنا سیکھاتا ہے ۔
پھر مجھے پتہ چلا کہ وہ عالم ہے ۔ فلسفے میں ایم اے، اسلامیات میں پی ایچ ڈی ہے۔ CPS بھی رہا ہے ۔ استاد ہے ۔ شملہ یونیورسٹی میں پڑھاتا رہا ہے ۔میں تو حیران رہ گیا کہ اتنا کچھ ہو کر بھی وہ کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ نہ مولویانہ طمطراق اور نہ عالمانہ تفاخر ۔
پھر طفیل صاحب آگئے ۔ بولے ” تم قرآن کیوں نہیں پڑھتے ؟ قرآن پڑھو تو تمھیں پتہ چلے کہ اللہ نے انسان کو کیا شرف عطا کر رکھا ہے ۔ اللہ نے اسے اپنا نائب بنایا ہے ، اسے اتنی طاقتیں بخشی ہیں کہ وہ کائنات کے مخفی بھیدوں کو جان سکے اور چھپی ہوئی قوتوں کو تسخیر کر کے اپنے استعمال میں لاسکے ۔”
صاحبو ! قرآن سے پہلے بڑے بڑے فلسفی انسان کے وجود کو مانتے ہی نہ تھے ۔ وہ کہتے تھے ، یہ دنیا ، یہ زندگی ایک سراب ہے ۔ اس کا اپنا کوئی وجود نہیں ۔ یہ تو ایک خواب ہے ۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button