لکھ یار

تعلیم کا بنیادی مقصد شعور و آگاہی یا پھر بہتر روزگار

تحریر :
احتشام چوھدری ( جی سی یونیورسٹی لاہور)


موجودہ دور میں تعلیم کسی بھی معاشرے کی سب سے اہم اور بنیادی ضرورت سمجھی جاتیeducation ہے.تعلیم کسی بھی انسان کی صحیح معنوں میں ذہنی اور روحانی نشونما اور بہتر تربیت کا ضمر ہے .تعلیم کی ہی بدولت انسان صحیح اور غلط کی تمیز کر سکتا ہے.تعلیم ہی ایک واحد چیز ہے,جس کی بدولت ہم ایک جاہل اور سلجھے ہوۓ انسان میں فرق محسوس کر سکتے ہیں.اللہ تعالی نے بھی اس بات کا واضح ثبوت دیاکہ
“جاہل اور عالم کبھی بھی برابر نہیں ہو سکتے”

تعلیم کی موجودگی ہی کسی شخص کو عالم اور سلجھا ہوا ,ایک مہذب شہری بناتی ہے.اور اسی کی غیر موجودگی ہی کسی بھی شخص کے جاہل اور بے شعور ہونے کی ذمہ دار ہے .آج ہم اگر جہالت کے گہرے اندھیروں سے نکل کر شعور کے اشرف مقام تک پہنچے ہیں تو اس کے پیچھے صرف اور صرف تعلیم کا ہی ہاتھ ہے.پیارے نبی سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ نے بھی اس قوم کو جو کہ جہالت کے گہرے سمندروں میں ڈوبی ہوئی تھی نکال کر ایک اعلئ و ارفع مقام عطا کیا تو اس میں بھی سب سے پہلی ابتدا مشہور و معروف حرف یعنی” اقراء” سے ہی ہوئی تھی.

” حیرت ہے تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
وہ جس قوم کی ابتدا ,اقراء سے ہوئی تھی ”

تعلیم کی بدولت ہی انسان ایک مہذب انسان کہلوانے کا حق دار ہے.یہ تعلیم کی موجودگی ہی اس کو اپنی زندگی کے بہتر فیصلے کر نے میں مدد دے سکتی ہے.یہی تو وہ بنیادی زیور ہے جو اچھائی اور برائی کی وضاحت کرتا ہے .یہی تو ہے جو انسان کو اس کی حقیقت جانچنے پر فکر مند کرتی.اس کو اپنی زندگی کا اصل مقصد جاننے پر مجبور کرتی ہے.تعلیم ہی تو ہے جو انسان کو اپنی زندگی گزارنے کا بہتر پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے .
تعلیم ہی تو ہے جو انسان میں تمیز پیدا کرتی ہے.یہی وہ تعلیم ہے جو انسان کو بزرگوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت کرنے کا درس دیتی ہے.یہی تو لوگوں میں محبت,خلوص,دوستی,اور امن پیدا کرنے کا پیغام دیتی ہے.یہی تو لوگوں کو الفت کی ٹھنڈی چھاؤں کے ساۓ تلے آرام پہنچاتی ہے.اسی تعلیم کے نا ہونے سے ہی تو نفرت کے انبار جنم لیتے ہیں.جو لوگوں میں خلوص و محبت کی بجاۓ ناراضگی,نفرت,حسد اور کینہ جیسی بیماریاں پیدا کرتی ہے.
اس کے ساتھ ساتھ ایک تعلیم ہی واحد چیز ہے جو کسی بھی ملک کی ترقی اور فلاح و بہبود کا سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ ہے.آج ہم اگر شہرت کے آسمانوں کو چھو رہے ہیں تو اس کے پیچھے تعلیم ہی ہے.اسی تعلیم نے ہم میں یہ شعور پیدا کیا کہ ہم زمین میں چھپے خزانوں.کو بروۓ کار لاکر انسانیت کو سکھ پہنچا سکیں.اسی کی بدولت ہی ہم ایک جنگلوں کی زندگی کی بجاۓ شہروں اور قصبوں میں بلند و بالا پر سکون زندگی جی رہے ہیں.اسی نے ہی تو پورے کے پورے گلوبل ورلڈ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے.
لیکن نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم اس تعلیم کے حقیقی مقصد کو ہی فراموش کر چکے ہیں.آج تو ہماری تعلیم کا اصل مقصد کچھ اور ہی بن چکا ہے.ہماری تعلیم کا اصل مقصد شعور و آگاہی,تہذیب اور تمیز تو قطعا ہی باقی نہیں بچا.آج ہم نے اس تعلیم کے اصل معانی کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے.ہم کو اس تعلیم کے حقیقی مقاصد سے تو اب بلکل بھی کوئی غرض نہیں رہی.ہم کو اس کی بنیادی تربیت سے کوئی مطلب نہیں .ہماری تعلیم کے اصول کے اصل مقاصد ہی پوری طرح ردوبدل ہو چکے ہیں.
آج ہم تعلیم کی ضرورت کو تو بہتر طریقے سے سمجھ رہے ہیں مگر اس کے اصل معنی اور مقصد سے پوری طرح لاغرض ہیں.
آج ہمارا مقصد صرف اور صرف ڈگری کا حصول ہے.آج ہماری تعلیم کا حقیقی مقصد صرف بہتر روزگا کی تلاش ہے.ہم آج تعلیم کو مختلف طبقات میں تقسیم کر چکے ہیں.اور ان طبقات کے ساتھ بھی ہم نے روزگار جوڑ رکھے ہیں.آج ہزاروں فیلڈز میں تعلیم کو بانٹ دیا گیا ہے.اور ان فیلڈز کے چناؤ میں بھی ہم بہت ہی سوچ وبچار سے کام لیتے ہیں .بہت ہی زیادہ مشاورت سے ان کے اختیار کرنے کا فیصلہ لیتے ہیں. طہت سے پڑھے لکھے لوگوں کی راۓ لیتے ہیں کہ آیا کہ کونسا فیلڈ میرے مستقبل کو چا ر چاند لگا سکتا ہے.کونسے فیلڈ کے اختیار سے میں اپنے مستقبل کا ایک چمکتے سورج کی مانند دیکھ سکتا ہوں.کونسا وہ فیلڈ ہوگا جو میری پوری زندگی کو پیسوں ہی پیسوں سے بھر کر رکھ دے گی.ایسی کونسی تعلیم ہوگی جس سے میں پوری زندگی عیش وعشرت سے گزار سکوں گا.ایسی کوئی تعلیم مل جاۓ جو مجھ کو پوری دنیا سے زیادہ امیر بنا دے.مجھے کوئی ایسی ڈگری دلوادی جاۓ جس کی بدولت میں بینک بیلنس کے ڈھیر لگا لوں.اپنے مستقبل کو تابناک بنالوں.
بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ ہم اس تعلیم کے حصول کے وقت بھی کچھ سیکھنے کی بجاۓ صرف اور صرف اچھے گریڈیا اچھے نمبروں کے زیادہ فکر مند ہوتے ہیں.
دلی دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو اس تعلیم کے بنیادی مقاصد سے بہرمند فرماۓ.ہم سمجھ سکیں کہ اسی تعلیم کا حقیقی پہلو کیا ہے.یہی وہ تعلیم تھی جس کی بدولت اسلام پورے دنیا کے کونے کونے میں پھیلا تھا.اسی تعلیم نے ہی انسان کو انسان بنایا تھا.اسی سے ہی طرف اجالے ہوۓ تھے.اسی تعلیم نے ہی جہالت کے اندھیروں کو ملیا میٹ کیا تھا.اور یہی وہ تعلیم تھی جس نے انسان کو اتنی ترقی دی تھی .اسی تعلیم نے انسان کو اس کی خودی کی پہچان دی تھی.ہم کو اس کے حقیقی مقصد کے سمجھنے کی ضرورت ہے.دینی اور دنیاوی تعلیم کے حصول سے زیادہ اس کے معانی اور مقاصد کا حصول زیادہ لازم ہے..

تعلیم ایمان بھی ہے, نظم و ضبط بھی
کردار بھی,یقین بھی, زندگی کا ربط بھی
تعلیم ہمت بھی ہے, عظم و عمل بھی
بندگی بھی ,رحمت بھی,لطف و فضل بھی
تعلیم تہہ سمندر بھی خلا کی کہکشاں بھی
جو ستاروں سے آگے وہ جہاں بھی
تعلیم کھوج بھی ہے , فکر معاش بھی
زیر زمیں __ دفینوں کی تلاش بھی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button