لکھ یار

خزا ں………….عظمی مظہر

آدھ کھلی کھڑکی سے باہر کا منظر اندر جھانک رہا تھا گہری کالی رات کے ماتھے پر سنہرا چمکتا چاند ، ٹھہر ٹھہر کر چلتی دھیمی ھوا ،اور دھرتی کے سینے میں گڑے اونچے لمبے سے درخت۔ اس کی ساری دلچسپی اسی منظر میں محو ھو گئی ۔ اس نے آگے بڑھ کر کھڑکی کا دوسرا پٹ بھی کھول دیا “ارے یہ کیا خزا ں کا موسم آ بھی گیا “درختوں کے نیچے زرد سوکھے پتوں نے زمین پر ایک موٹی سی تہہ بچھا دی تھی “کتنے پیارے لگتے تھے درخت پتوں اور پھولوں سے بھرے ہوۓ ۔کیا تھا اگر اللہ ہمیشہ بہار کا موسم رکھتا کبھی خزا ں نا آتی “اس نے خود کلامی کی۔ لیکن دوسرے ھی لمحے کسی کے دھیمے لہجے میں کہے لفظ ذہن میں گونجے “خزاں کا موسم اداسی اور نا امیدی کا موسم نہیں ہے بلکہ یہ تو تبدیلی کا موسم ہے جو بہار کی آمد کی نوید سناتا ہے ۔زمانے کے سرد و گرم سہتے ،آندھیوں طوفانو ں سے لڑتے جب یہ درخت پودے اپنا اصل رنگ کھونے لگتے ھیں تو خزاں ان درختوں کے ہاتھ خالی کر دیتی ہے اور پھر انہی خالی ہاتھوں کو بہار پھولوں ، پتوں اور خو شبو ؤں سے بھر دیتی ہے بلکل ایسے ھی زندگی میں دکھ ،تکلیف ،پریشانی بچھڑنا ،نا کامی سب زندگی کا حصہ ھیں اس وقت کے دھار ے کا حسن ھیں لیکن اس کے ساتھ ھی خوشی ،سکون ،کامیابی ،ملن اور راحت بھی ھیں ۔ ان سب نے اپنے وقت پر آنا ہے لیکن آنا ضرور ہے بس تم امید کی زمین میں یقین کی جڑیں گہری رکھنا ” 

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button