لکھ یار

خوف ……. تحریر ۔ عظمیٰ فانی

” مجھے یاد ہے اپنے بچپن کی بات کہ میں آسمان کو اللہ سمجھا کرتی تھی سوچتی تھی کہ اللہ اتنا بڑا ہے تبھی تو لوگ اللہ سے ڈرتے ھیں میرے ذھن میں ہمیشہ اللہ کا خوف رھتا تھا کہ اللہ جان بوجھ کر لوگوں کو بیمار کرتا ہے انکو زندگی میں بھی تکلیف دیتا ھے اور جب مر جاتا جاتا ہے کوئی تو قبر کے اندھیرے میں فرشتوں سے مار پڑواتا ھے ۔ میرا یہ ایک تصور تھا خیر سے اس برے نظرئے کے پیچھے میرے بزرگوں کی باتیں کارفرما تھیں جن کا یہ قول ھوتا تھا کہ اللہ سے ڈرو اللہ جھنم میں ڈالے گا سخت عذاب دیگا۔ مجال ہے جو کوئی مثبت بات بھی تب سنی ھو۔ تو ظاہری بات ہے میں نے اللہ کو بس خوف کا خدا سمجھا ھوا تھا اور اسی خوف نے مجھے اللہ سے دور کر دیا ۔ زندگی رنگ بدلتی گئی میری عمر اور علم بھی بڑھتا گیا تو اللہ کو جاننے کا تجسّس پیدا ہوا میں یہ جان کر حیران ہوگئی کہ کوئی ذات اتنی مھربان ہو سکتی ہے ؟ اور کچھ ایسے حالات پیش آئے کہ اللہ کی رحمت ہی رحمت ھونے لگی اور میں نے لفظ اللہ کا مطلب سمجھنا چاھا جاننے کے بعد مجھے بچپن کے خدا کا بت ٹوٹ چکا تھا اور ایسے اللہ سے رشتہ جڑا جو رحمت کا خدا ہے محبت کا خدا ہے جو ماں سے ستر گنا زیادہ ہر بندے سے محبت کرتا ھے جو ہمارا خیال رکھتا ہے بارشیں برساتا ہے اتنی خوبصورت کائنات کا مالک ہے ۔ جس نے کہا ھے کہ انسان کتنا گنہگار کیوں نہ ھو پر میری رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے جس نے لوح محفوظ پر لکھ رکھا ہے میرے غضب پر میری رحمت حاوی ھے ۔ سوچیں وہ اللہ کیسا ھے ؟ خوف سے اسکی عبادت کرنے کے بجائے اس کی رحمت سے اسکی مشیت سے متاثر ہو کر اسکی عبادت کریں گے تو سکون قلب حاصل ہوگا ۔ انسانی زندگی کے دو ہی پہلو ہیں ایک منفی ایک مثبت ۔ محبت مثبت جذبہ ھے اور ڈر خوف منفی ۔ خوش وخرم ہمیشہ مثبت لوگ رھتے ہیں ۔ لہٰذا خوف بھت بڑی رکاوٹ ہے دماغ کا خلل ھے ۔ ہمیں اس خلل کو موت دے دینی چاہیے ۔ اللہ پاک ہمارے اندر کا خوف ختم کر کہ دل میں اپنی محبت موجزن کردے جو لوگ اللہ ساتھ محبت کرتے ہیں اسے ایک مانتے ہیں ایسے لوگ کسی چیز کا خوف نہیں رکھتے ۔ اگر خوف خدا ہونا بھی چاہیے تو وہ بھی مثبت طرز میں ہو اللہ کی ناراضگی کا خوف ہو اس سے دوری کا کا خوف ہو۔

ہماری زندگی واقعات سے بھری پڑی ہے کچھ واقعات خوشگوار ہوتے ہیں جبکہ کچھ انتہائی تکلیف دہ ھوتے ہیں ۔ ہمارے برے حالات میں قدرت کا عمل اتنا نہیں ہوتا جتنا کہ ہمارے خودساختہ خوف کا کردار ہوتا ہے ۔ ہمارے بڑے اکثر بچوں کو جنات سے ‘ بھوتوں سے ‘ آسیب سے ڈراتے ہیں اور نتیجتاً انسان کے لا شعور میں وہ خوف محفوظ ہو جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں ھم بڑے ھوتے جاتے ہیں تو وہ خوف بھی ہمارے ساتھ بالغ ھوتا رہتا ہے ۔ حلانکہ یہ بھی حقیقت ہیں جنات آسیب وغیرہ کو کسی نے نہیں دیکھا ہوتا ھو سکتا ہے کہ اصل میں جنات یا چڑیل اتنے خوفناک نہ ھوں جتنا ہم انکو اپنے تصور میں انکی شبیہہ دماغ میں بٹھا لیتے ہیں ۔ یہ سب ایک فرضی کہانیاں ہیں جو کہ ہم اپنے بچوں کو گھڑ گھڑ کر سناتے ھیں۔ بڑے بھی جانتے ہیں کہ کوئی آسیب نہیں نہ کسی جن کے پاس اتنا ٹائم ہوتا ہے کہ آکر بچوں کو ڈرایں ۔۔ ہماری زندگی میں اتنے بے شمار خوف ہیں یقین مانیے جنکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بس وہ خودساختہ مفروضے ہوتے ہیں ۔ ویسے تو بہت سارے خوف ہیں مگر انسان جو خوف حاوی کرلیتے ہیں دہ وہ درج ذیل ہیں ۔ 1 موت کا خوف ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ موت ایک اٹل حقیقت ھے اور حقیقت کے بارے میں چھان بین نہیں کی جاتی بلکہ اسے تسلیم کیا جاتا ہے ۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو موت کے نام سے ہی ڈر جاتے ہیں انکو روح نکلنے کا ڈر ہوتا ھے عذابِ قبر کا تصور نفسیاتی طور پر اپاہج کر دیتا ہے اور وہ مرنا نہیں چاھتے ۔ اسکی وجہ وہ خوف ہے جو کہ لاشعور میں بیٹھا ہوا ہوتا ہے اور خوف نہ زندہ رہنے دیتا ھے اور نہ مرنے دیتا ہے ۔ خوف کے باعث زندگی کے کام بھی اس انسان سے نہیں ہوتے ۔ اسکے برعکس اگر ہم یہ سوچیں کہ موت زندگی کی تمام تماشوں سے چھٹکارا ہے موت خالق سے ملاقات کی سیڑھی ھے ۔ موت تو مثبت لفظ ہے جس سے ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے مر جانا ہے لہٰذا نیک کام کریں خود سوچیں کہ اگر ہم نے مرنا نہ ہوتا تو جی جی کر تنگ نہ ہو جاتے ؟ بوڑھے ہوکر گندگی برپا کر دیتے چلو اچھا ہے مالک نے موت تو رکھ دی ۔ ہم اس دنیا میں خالقِ کائنات کو نہیں دیکھ سکتے یہ فانی جہاں ہے اسکے کےلئے مرنا لازمی ہے یقین جانیں موت سے محبت ھو جائے گی اور ھم اپنے اعمال درست کر لیں گے ۔ 2۔ کچھ کھو جانے کا خوف۔ انسان کے ساتھ بڑا عجیب مسئلہ ہے وہ کسی بھی حال میں خوش نہیں رہتا آگے سے آگے بڑھنے کی خواہش ھوتی ھے اور جب کچھ بن جاتا ہے تو کچھ کھو جانے کا ڈر مسلط ہو جاتا ہے ۔ رشتوں کے کھونے کا خوف ‘ رویے بدلنے کا خوف یوں انسان نفسیاتی مریض ہو جاتا ہے ۔ لیکن اسکے برعکس ہم یہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک ٹائم رکھا ھوتا ہے جس چیز نے ملنا ہے یقیناً اسنے جانا بھی ہے ۔ عروج ملا ھے تو زوال نے بھی آنا ہے پروردگار اگر کوئی نعمت لیتا ہے تو اس سے بھتر دیتا ھے ہمارا خوف لا حاصل ہے ۔ 3, ۔ لوگوں کا خوف ۔ معزرت کے ساتھ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اسکی من گھڑت روایتیں ہیں جو ھم پر تھوپ دی جاتی ہیں انسان کو لوگوں یا انجانا خوف رھتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے ؟؟ میری ناکامی پر سب مذاق اڑائیں گے یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا ۔ یعنی وہ سب سوچتے ھیں جو کہ ھوتا تک نہیں نہیں ۔ ایک اچھا بھلا انسان خوف کی وجہ سے دب جاتا ہے ۔ لوگ کسی کے بارے میں وقتی رائے دیتے ہیں پھر وہ کسی اور کو پکڑتے ہیں کسی کے پاس اتنا فضول ٹائم نہیں ھوتا کہ وہ بیٹھ کر ہمارے بارے میں گھرائی میں سوچیں ۔ لوگ کچھ نہیں کر سکتے یہ ہمارا خوف ہی ھوتا ہے جو لوگوں کی خوفناک شکل اختیار کر کے ہمیں آگے جانے سے روکتا ھے ۔ اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں بسائیں اور دماغ میں امید کے چراغ روشن رکہیں تو کوئی بھی خوف امید اور محبت پر غالب نہیں آسکتاimages

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button