لکھ یار

رحمتہ علیہ ( مطلب اللہ کی رحمت ہو ) اور قدرت اللہ شہاب

علی عرفات یوسف

ممتاز مفتی گروپ کی جانب سے کراوئے گئے گیٹ  ٹو گیدر پروگرام میں میرا سر عکسی کےali arfat ساتھ شائد صرف اسی بات پر مکالمہ ہوا ،
سر عکسی نے زور دے کر یہ بات کہی کہ قدرت کو رحمتہ علیہ نا لکھا جائے یا پکارا جائے ، میں ذاتی طور پر بھی اسی بات کا قائل ہوں کہ ہمیں شخصیت پرستی میں جا کر کسی کو ایسے القاب نہیں دینا چاہئیں ، مگر کچھ باتیں ہیں جو کرنا چاہتا تھا ،
سر عکسی نے کہا کہ ان کو رحمتہ علیہ نا کہیں ، میں نے ان سے عرض کی تھی کہ اگر کسی کی عقیدت کسی کے ساتھ وابسطہ ہو جائے تو یہ لکھنے یا کہنے میں کوئی حرج نہیں ،
بات دلچسپ ہے لکھنے یا کسی کو کہہ دینے سے فرق نہیں پڑتا ، اگر کسی کو کہہ دیں تو شائد کچھ ثواب کہنے والے کو مل جائے نا کہیں تو گناہ نہیں ہو گا ، مگر کیا لکھنے سے گناہ ہو گا ، میں نے اس پر تحقیق کی تو پتا چلا کہ کوئی بھی مسلمان جو اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کر لے ، اور نبی پاک کو اپنا ہادی و رہنما تسلیم کرتا ہو تو اسے رحمتہ علیہ کہنے یا لکھنے میں مضائقہ نہیں ،،،

سر عکسی کا یہ کہنا تھا کہ ان کو اس لقب کی وجہ سے ادبی حلقوں میں پسند نہیں کیا جاتا ، اسی وجہ سے وہ بھی ان کے نام سے منسوب ایک پیج پر آنا پسند نہیں کرتے ، بلکہ قدرت کے صاحبزادے ثاقب شہاب صاحب کو بھی اس پر اعتراض ہے ۔
اب اس بات کو مختص کریں اگر قدرت اللہ شہاب کے ساتھ تو ہمیں یہ بات واضع طور سامنے ائے گی کہ ہم لوگ جو عام قاری ہیں ہم قدرت کو نہیں جانتے تھے ، ہمارا ایسا کوئی لنک ان کے ساتھ نہیں تھا جس بنا پر ہم انھیں ایک ادیب سے بڑھ کر ایک ولی کا درجہ دیں ، ہمیں یہ سب باتیں معلوم ہوتی ہیں قدرت اللہ شہاب صاحب کے ساتھ وابسطہ لوگوں سے ،
ممتاز مفتی سے ،
بانوقدسیہ سے ،
یا
اسی طرح کے دیگر ادبی حلقوں کے ذرائع سے ۔۔۔۔
اسی طرح کچھ ممبرز نے کل بھی شہاب صاحب کے بارے میں کچھ سر عکسی کی زبانی سنا ، سر عکسی خود اپنی کتاب ٭ ایک دن کی بات ٭ میں لکھتے ہیں کہ جب وہ شہاب صاحب کو بیماری کی حالت میں ہسپتال لے کر جارہے تھے جو کہ ان کا آخری سفر تھا ، جس کے بعد ان کا انتقال ہو گیا ، اس سفر کے بعد ان کو جو دمے کا مسئلہ تھا وہ ہمیشہ کے لئے ٹھیک ہو گیا ، اور ڈاکٹر نے بھی ان سے کہا کہ شہاب صاحب جاتے ہوئے عکسی ساحب کا دمہ بھی لے گئے ۔ یہاں سر عکسی یہ بھی لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر جو ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا ، یہ بات وہ ڈاکٹر کہہ رہا ہے ۔۔۔
میری گیٹ ٹو گیدر میں سر سے صرف اسی موضوع پر بات ہوئی ۔
سر نے کہا ہم نے مان لیا
مگر وہ لوگ جو یہ سب پڑھ کر شہاب صاحب کو یہ لقب دیتے ہیں ، ہم کیا ان کو روک سکتے ہیں ، اگر روکیں بھی تو کس طرح ،،، یہ سوال ہمیشہ ایک مشکل عمل ہو گا ۔۔۔

سر عکسی یہاں تک فرماتے ہیں کہ عشق ، وحدالوجود اور صوفی ازم یہ ایک حقیقت ہے ،
اب حقیقت یہ ہے کہ عوام ان ہی سے منسلک شخصیات کے لئے یہ القابات استعمال کرتے ہیں ، اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ، کوئی بھی شخصیت جو مزہب میں کوئی مقام حاصل کرتی ہے وہ اپنے لئے کوئی لقب استعمال نہیں کرتی بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ اس کے بعد اس کے ماننے والے اسے مختلف القابات سے نوازتے ہیں ۔ اگر ادبی حلقے شہاب ساحب کو اس وجہ سے یاد نہیں کرتے کہ ان کے ماننے والے انھیں رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں یہ تمام ادبی حلقے قائد اعظم محمد علی جناح کے نام کے ساتھ بھی اس لقب کو پسند نہیں کرتے ۔ جناح جو ساری زندگی مسٹر جناح رہے ، انھیں بھی انکی قوم نے محمد علی جناح رحمتہ علیہ کہا اور کہتے ہیں ، اور اس کی کئی ایک وجوہات ہیں ۔ ان میں سے ایک ان کی سچائی ، رزق حلال ، اور اسلام کے ساتھ وابستگی تھی ۔
ایک قدر تو جناح ساحب اور شہاب صاحب میں بدرجہ اتم مشترک ہے
کہ دونوں سرکار کے اہم ترین عہدوں پر براجمان رہے مگر ایک لقمہ حرام نہیں کھایا ۔۔۔
صرف اسی خوبی کو لے لیا جائے تو
ہمارے نبی پاک علیہ سلام فرمانے ہیں
کام کرنے والا اللہ کا حبیب ہے
اور
رزق حلال کمانا عین عبادت ہے
کیا یہ دو خوبیاں ان دو شخصیات کے ساتھ رحمتہ اللہ علیہ لکھنے کے لئے کافی نہیں
یہ میرا سوال نہیں فقط یہ عرض ہے کہ کسی بھی من چلے کی کسی کے ساتھ چاہت کے جذبے کو تسلیم کرنے کی بات ہے ، ہم کسی کو کچھ کہیں یا کہیں ، مگر جو بھی کسی کو یہ القابات دے گا وہ اس شخصیت کا اللہ اور اس کے حبیب کے ساتھ رشتے کو دیکھتے ہوئے ہی اس کو یہ لقب دے گا ۔۔۔
آخر میں صرف یہ کہ
آواز حلق نقارہ خدا ہے
اگر خلق ان کی دیوانی ہے اور اسی دیوانگی میں انھیں کوئی لقب دہتی ہے تو کیا مضائقہ ۔

Related Articles

2 Comments

  1. Well said, shahab Sab R.a ka rohani muqaam he aesa ha k na kehte ya likhte hue be-adbi ka khadsha sa rehta ha. So there is nothing wrong with this.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button