لکھ یار

حیات از قلم عظمیٰ خرم

  1. #پری_اپرووڈ 
  2. #حیات_پارٹ_13
  3. # حیات 
  4. پارٹ 13
  5. زاہد اور اس کی بیوی یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ آخر ان کی پیاری چیز ان کی ،”اولاد “،کیوں زیر عتاب تھی ۔بچے معصوم ہوتے ہیں پر اکثر قدرت والدين کو سبق سکھانے کے لئے انہیں آزمائیش بنا دیتی ہے ۔اور پھر جب ماں جیسی عظیم ہستی کی بد دعا ہو یا دعائیں رک جایں تو آپ کے سر سے عافیت کی چھتری ہٹا لی جاتی ہے ،نصیب کے ساتھ ،”بد”،لگ جاتا ہے ۔ایک مجازی خالق کی نا قدری انسان کو حقیقی خالق کے غیظ ؤ غضب کا شکار بنا دیتی ہے ۔
  6. اسے سٹیشن پر بیٹھے کتنے ہی گھنٹے گزر چکے تھے۔بکھرے بال دو جگہ سے پھٹی قمیض ،چہرے اور ہاتھوں پر جا بجا ناخنوں کے زخم،سر سے بہتا خون خود ہی بہہ کر جم چکا تھا پر ٹیسیں اب تک اٹھ رہی تھیں۔ایک پاؤں میں چپل اور دوسرا جلا ہوا پاؤں چپل سے بے نیاز تھا ۔دھندلاتی نظر سے اس نے خود کا جائزہ لیا ۔
  7. اس کے دل نے دماغ سے پوچھا ،”کیا پایا “؟ “کیا بچایا ؟”
  8. ساری جوانی اپنی انا اس اولاد کے لئے گلائی ؟ کیا ہوتا اگر وہ اس وقت کسی کا بڑھا ہاتھ تھام لیتی ؟اولاد نے تو آج بھی جوتے مارے کل بھی مارتی پر اس کی اپنی ایک پہچان ہوتی ،زندگی ہوتی ۔ساری عمر اس نے اپنی جوانی کے منہ زور جذبات کے آگے صبر کا بند باندھے رکھا ،اپنا آپ فنا کر دیا ،خود کی ہستی فراموش کر دی ۔مٹی کر لیا خود کو ،کیا کیا نہیں برداشت کیا صرف اور صرف اس اولاد کی خاطر جو اسے بیوی کی محبت میں ایسی خود غرضی اور عجلت میں سٹیشن پر چھوڑ کر گیا کہ پلٹ کر دیکھنا تک گوارا نہیں کیا اس نے ۔
  9. لوگ تو گھر کا کباڑ بھی پھینکتے وقت ایک نظر ڈال لیتے ہیں کہ کہیں کوئی کام کی چیز بیکار نہ چلی جائے پر وہ تو اپنی اولاد کے لئے کباڑ سے بھی زیادہ بیکار تھی ۔
  10. بہتے ہوے آنسوں اور زخمی تن اور من کے ساتھ وہ زندگی کی کتاب کھولے سود ؤ زیاں کے حساب میں مصروف تھی ۔
  11. تبھی لاہور جانے والی ريل گاڑی آ کر رکی ۔بمشکل خود کو گھسیٹ کے وہ دکھی دل سے ريل گاڑی پر سوار ہو گئی ۔

حیدر آباد کا سٹیشن گزرا ہی تھا کہ ٹکٹ چیکر ڈبے میں آ گیا ۔اس نے بختاور سے ٹکٹ مانگا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تب اسے یاد آیا کہ وہ بنا ٹکٹ سفر کر رہی ہے ۔اور کس طرح تہی دامن ہو کے وہ بیٹے کے گھر سے نکلی تھی ۔اس نے ٹی ٹی کو بتانا چاہا کہ اس کے پاس ٹکٹ کیوں نہیں تھا ،پر اس نے اسے بھکارن سمجھ کے حقارت سے ٹوک دیا ،”او بس بس !بہت دیکھی ہیں تیری جیسی ۔روز واسطہ پڑتا ہے میرا تجھ جیسی فقیرنیوں سے ،ڈرامے ہی نہیں ختم ہوتے تم لوگوں کے ۔میرے پاس وقت نہیں ہے تمہاری الف لیلیٰ سننے کا ابھی اگلے سٹیشن پر جب تمہیں گاڑی سے نیچے اتاروں گا نا تب عقل ٹھکانے آے گی تمہاری “۔ 

بختاور نے اس کے پاؤں پکڑ لئے ،”نہیں بیٹا نہیں میں بهكارن نہیں ہوں بس نصیبوں کی ماری ہوں تیری مہربانی مجھے لاہور پہنچا دے بس مجھے اپنے بیٹے کے پاس جانا ہے “۔

ایک مسافر نے ٹی ٹی کو کہا کہ کیا معلوم یہ سچ کہہ رہی ہو ۔،”تو تم خرید لو اس کا ٹکٹ بات ختم “۔ ٹی ٹی نے سچ میں بات ختم کر دی تھی ۔سب مسافر ادھر ادھر دیکھنے لگے ۔

اگلے سٹیشن پر جیسے ہی گاڑی سست ہوئی ٹی ٹی بختاور اور ساتھ دو اور بنا ٹکٹ کے سفر کرنے والوں کو لے کر اتر گیا ۔

یہ کسی گاؤں کا چھوٹا سا سٹیشن تھا جہاں بڑی گاڑیاں صرف ایک دو منٹ کے لئے رکتی تھیں یا صرف رفتار کم کرنے پر ہی اکتفا کیا جاتا تھا ۔

ٹی ٹی نے بختاور کے بارے میں سٹیشن ماسٹر کو بتایا ۔سٹیشن ماسٹر درمیانی عمر کا شخص تھا اس نے ایک نظر بختاور پر ڈالی اور پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا ۔

سٹیشن ماسٹر جمیل باؤ قریب کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتا تھا ،آج اس کے گھر میں اس کی بہن کی مہندی کی رسم تھی ۔اس نے جلدی سے سارا چارج آنے والے ٹی ٹی کے سپرد کیا اور بے چینی سے دفتر سے باہر آ گیا ۔

سردیوں کے دن تھے اور شام اترنے کو تھی ۔اپنے تانگے کا انتظار کرتے جمیل کی نظر ویران سٹیشن پر اجڑی بیٹھی بختاور پر پڑی جو سردی میں اپنے پاؤں کو سہلانے میں مصروف تھی ۔جمیل نے پاس جا کر اسے گہری نظروں سے جانچا اسے وہ عورت دکھ درد کی ماری تو لگی پر بهكارن نہیں ۔اس نے دل ہی دل میں ٹکٹ چیکر کو کوسا ۔کیوں کہ کم از کم آج کے دن جمیل کوئی بد شگونی نہیں چاہتا تھا ۔

اس نے بختاور سے بات چیت شروع کی ۔بختاور نے اسے بتایا کہ وہ کراچی کسی رشتہ دار کے پاس آئی تھی پر اب وہ ہر صورت اپنے بیٹے کے پاس لاہور جانا چاہتی ہے ۔جمیل نے بختاور کے بتاے ہوے لاہور کے بڑے ہسپتال ٹیلی فون کیا کال بک کرائی پر وہاں سے یہی جواب ملا کہ ،”سر یہاں اتنے ملازم کام کرتے ہیں آپ کون سا کسی ڈاکٹر کا پوچھ رہے ہیں “۔

جمیل کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ بختاور کے دعوی کی سچائی ناپ سکتا اور شام کے بڑھتے سایے اور اس کی رحم دل طبیعت اسے اجازت نہیں دیتی تھی کہ اس ویران سٹیشن پر ایک اكيلی زخمی عورت کو چھوڑ کر چلا جائے ۔لاہور جانے والی اگلی گاڑی اب کل آنی تھی ۔تبھی اس نے عجلت میں ایک فیصلہ کیا ۔”ماں جی آپ میرے ساتھ میرے گاؤں چلیں ،میرے گھر میری بہن کی آج شادی ہے اور میرا جلد پہنچنا بہت ضروری ہے ۔یہاں آپ اكيلی رات کو کیسے رہیں گی جنگلی جانوروں کا ڈر رہے گا ۔آپ میرے ساتھ چلیں میں کل آپ کو لاہور جانے والی ريل گاڑی پر بٹھا دوں گا “۔ 

بختاور نے بهيگی دھندلی نظر سے ارد گرد دیکھا اور چار نا چار جمیل کے ساتھ تانگے پر سوار ہو گئی ۔کوچوان رحمت کے سوالوں سے بچنے کے لئے اس نے کہہ دیا کہ یہ اس کی دور کی رشتہ دار ہیں اور شادی میں شرکت کے لئے آئی ہیں ۔

سارا راستہ بختاور نے خاموشی سے گزارا اس کے آنسو اس کے دل پر گر رہے تھے ۔گاؤں جانے والی اکلوتی سڑک پر سرپٹ بھاگتے تانگے کی ایک دم لگامیں کھنچ گئیں ۔

کچی سڑک کے بیچ میں چوہدری صاحب کی جيپ کھڑی تھی ۔جيپ کا پہیہ پنكچر ہو گیا تھا اور چوہدری صاحب کا بیٹا حسن انتظار میں کھڑا تھا کہ کب حویلی سے مدد آتی ہے ۔

“باؤ حسن !آپ ایسا کریں میرا تانگہ لے کر حویلی پہنچيں میں بندے آنے تک جيپ کے پاس ركتا ہوں ۔”

حسن نے ایک نظر تانگے کو دیکھا اور پھر بختاور کو ،اس کے نظروں کے سوال کو جمیل نے جواب دیا مہمان ہیں جی کوئی مسلہ نہیں آپ اماں جی کو حویلی لے جایں میں پیچھے پیچھے آتا ہوں “۔

بختاور نے پریشان نظروں سے ساری صورتحال کو دیکھا پر وہ کر بھی کیا سکتی تھی ،اس نے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا ۔

چوہدری حسن نے حویلی میں جاتے ہی ملازم کو اشارہ کیا کہ بختاور کو زنان خانے میں لے جاے ۔

جایں ماں جی !اندر زنان خانے میں جایں ،اور بے فکر رہیں آپ مہمان ہیں ہماری “۔

بختاور نے اس خوبرو نوجوان کی طرف دیکھا جس کی آواز اور جوانی کی اٹھان کسی عہد رفتہ کی یاد دلاتی تھی ۔

بختاور زخمی تن من کے ساتھ ملازم کے پیچھے ہو لی ۔

تبھی پیچھے سے آنے والی آواز نے اس کے بڑھتے قدم زنجير کر دیے ،”بختو !”حیرت میں ڈوبی ہوئی آواز نے اس کا نام پکارا تھا ،”بختاور !یہ تو ہے نا !!”

آنکھوں میں حیرت لئے بختاور پلٹی پر چند قدم کے فاصلے پر پکارنے والے کے سراپے کی تاب نہ لا سکی اور اس کا دماغ تاریکیوں میں ڈوب گیا ۔

____________ ____________ ____________ _____

 

اندھیرا چھٹ چکا تھا ۔پو پھٹنے کے قریب تھی گاؤں کی کچی مسجد کا صحن بچوں کی قرآن پڑھنے کی آوازوں سے گونج رہا تھا ان میں ایک آواز ایسی بھی تھی جس کا دھیان بھٹک بھٹک کر مسجد کی چار دیواری سے متصل حافظ جی کے صحن میں جلتی لکڑیوں کو پھونکنی سے پھونکيں مارتے وجود پر تھا ،اور حافظ جی کا دھیان اسی بھٹکی ہوئی آواز پر تھا ،”اوے وجی ! کدھر دھیان ہے تیرا ؟ ساری کائنات اٹھ گئی پر تیری انگڑائی نہیں ٹوٹی ابھی تک ؟ آ تیری ہڈیاں توڑوں پيس کے سرمہ بنا دوں ان کا ؟کسی کے کام تو آے گا “۔

پھونکنی پھونکتی دھویں سے جلتی انگارہ آنکھوں نے چولہے سے دھیان ہٹا کر مسکرا کے یہ منظر دیکھا ۔

یہ روز کا معمول تھا یہ وجاہت تھا بختاور سے پانچ چھے سال چھوٹا،گاؤں کا سب سے شریر لڑکا ،پر جیسے ہی حافظ جی کے صحن میں قدم رکھتا تو ساری شرارت چھو منتر ہو جاتی ۔حافظ جی کے گھر کے سارے کام بھاگ بھاگ کر وہی کیا کرتا ۔اسے خود بھی نہیں پتا تھا کہ وہ ایسا کیوں ہو جاتا تھا ۔سارا دن جب بھی اسے موقع ملتا بھاگ کر حافظ جی کے گھر آ جاتا اور پوچھتا ،”بختو باجی !کوئی کام ہے تو بتایں ؟” اس کا بس نہ چلتا کہ بختاور کو گڑیا بنا کے سجا دے اور اس کی ہر سر درد کو اپنا بنا لے ۔

اب بھی وہ آیا حافظ جی !کہہ کر بھاگ کر بختاور کے پاس پہنچ گیا اور اس کے ہاتھ سے پھونکنی لے کر زور زور سے لکڑیوں کو پھونکنے لگا ۔”ارے ارے وجی !نہ کر ،کیا كملا ہو گیا ہے تو اتنی آگ بھڑکے گی تو لکڑی جلدی جل کے کوئلہ ہو جائے گی “۔ وجاہت نے کچے دھویں سے سرخ آنکھیں لئے اسے دیکھا اور سارا دھواں اپنے اندر اتار لیا ۔

پھر وہ دن بھی آیا جب اس نے مرے دل کے ساتھ مبارکاں ،مبارکاں ،سلامت سلامت کے شور میں سب کو چھوہارے بانٹے ۔

ماسی نے کتنا زور لگایا تھا اسے کہ ایک بار اپنی بختو باجی کو دیکھ تو لے ،سارا دن اس کا دم چھلا بنا پھرتا ہے اور آج دیکھو کیسے شرما رہا ہے ۔

پر وہ بھاگ کر گھر آ گیا اور اندر بھڑولے کے پیچھے چھپ گیا ۔وہاں اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا ۔وہاں بیٹھ کر وہ دل کھول کر دھاڑیں مار مار کر رویا ۔اسے لگا اگر آج وہ نہ رویا تو اس کا دل پھٹ جائے گا ۔

گھر والے شادی سے واپس آے تو شام ڈھلے اس کی تلاش شروع ہوئی ۔پورے گاؤں میں ڈھنڈیا مچ گئی ۔کچھ لڑکے بالے بارات کے پیچھے تک اس کا پتا کرنے گئے پر اسے نہ ملنا تھا نہ ملا ۔

رات گئے کسی کی نظر بھڑولے تک گئی تو لڑکے کی خبر ملی ۔وہ وہاں جانے کب سے پڑا بخار میں تپ رہا تھا ۔

جاری ہے…….. جاری ہے……

از قلم ،”عظمیٰ خرم “

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button