لکھ یار

غروب آفتاب…….احسن علی

آفاق کے سینے پر یہ ایک آگ کا گولا خلق کی تمام کیفیات کا راز داں بنا ہے ، طلوع سے غروب تک انسانی حوصلے کے ہمراہ رنگ بدلتا ہوا مونس و غمخوار ، سکون و وحشت کے مد و جزر سے ماورا ، مغرب کی گھاٹیوں پر لہو رنگ ملبوس اوڑھے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دن بھر کے انسانی جتنوں کا نچوڑ ، انسانی تھکن کی پوٹلی لیے کسی گہری کھائی میں کود رہا ہو کبھی اس کی طرف ہاتھ بڑھائے جائیں اے لٹیرے میری آج کی امید لوٹا دے خدا کے واسطے میری آج کی کمائی لوٹ نہ لے جا ، کبھی اس کا شکر بجا لایا جائے لے جا لے جا اے میرے مسیحا میرا آج کا خوف چرا لینے کا شکریہ تیرا شکریہ یہ ڈوبتا سورج کسی عاشق کے رنگین خیال و وصال کا مداوا جو اس کے لئے اندھیرے کا سامان کرے گا یہ کسی مزدور کے جسم کو کمخواب کا بستر دے گا ، اس کے ڈوبنے پر ہر دماغ خلل کی کیفیت میں ہے ہر قدم اجلت کے سفینے پر ، کوئی اسے روکنا چاہتا ہے کہ تھوڑا ٹھہر ایک ادھورا کام تو کر لوں ، کوئی اسے دھکیلنا چاہتا ہے اندھیرے کی آس میں ، مگر یہ کسی کی نہیں سنتا ، یہ گونگا بہرہ جانتا ہے وقت مجھ سے ہے میں نجات دہندہ ہوں کئی مشکل میں پھنسے سفینوں کا کئی مایوس دلوں میں نئے وقت کی امید کا سہارا ہوں ، یہ انسان کے دن بھر کا حساب ایک سرخ پولٹی میں لئے سب کو ہات ہلاتے ہلاتے کود جاتا ہے اندھیرے جنگل میں اور رات بھر سفر میں رہ کر نئے دن اور خالی سفید پوٹلی لئے پھر سے ابھرتا ہے نئے حوصلے لئے کہ جو شام تک پھر انسانی اعمال کے پرتو سے لہو رنگ ہو جائے گی …..!!!!! 22217909_10212944815629358_1905155333_o

 

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button