لکھ یار

حیات از قلم عظمیٰ خرم

#پری_اپرووڈ 

#حیات_پارٹ_6

# حیات 

پارٹ 6

از قلم ،”عظمیٰ خرم”

دارلشفقت میں مولوی ،”چراغ دین”،کی فجر کی نماز کی اذان سے صبح بیدار ہونے کو تیار تھی ۔تمام ہال کمروں میں بچوں کو جگایا جا رہا تھا ۔اس علاقے کی شائد وہ واحد مسجد تھی جس میں فجر کے وقت بھی نمازیوں کی صفیں مکمل بھری ہوئی تھیں اور بلا شبہ اللّه کی بارگاہ میں بھی ان معصوم چھوٹے چھوٹے نمازیوں کا تذکرہ ہو رہا ہو گا جنہیں زبردستی اٹھا کر نماز کے لئے کھڑا کر دیا گیا تھا ۔زاہد اور حامد کے لئے یہ صورتحال کافی پریشان کن تھی ۔وہ تو سردیوں میں صبح صبح اسکول جانے کے لئے بمشکل تیار ہوتے تھے ،ضد کرتے تھے ،روتے تھے ،چیختے تھے کجا یہ کہ فجر کی نماز ۔۔۔۔۔۔وہ بھی مسجد میں ۔۔۔۔ انقلاب زمانہ کیا آنا تھا ان کی زندگی تو ایک سو اسی کے زاویے پر گھوم چکی تھی ۔دونوں کو بےبے کی بےتحاشا یاد آئی تھی وہ یہاں ہوتی تو کبھی ان پر یہ ،”ظلم”،نہ ہونے دیتی ۔دونوں اپنی جگہ صحیح سوچ رہے تھے ۔

بحیثیت ماں باپ ہم اپنی اولاد کو اسکول بھیجنے کے لئے کس قدر ظالم ہو جاتے ہیں اور تب تو اور بھی زیادہ جب بچوں کے اسکول میں کوئی امتحان ہو ،بچہ بخار میں تپ رہا ہو یا ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ جائے ہر صورت اسے امتحان میں بٹھانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم خود بھی تو مسلسل زمانہ امتحان میں ہیں اور ہم سے ہماری ،”رعیت” کے بارے میں سوال پوچھا جائے گا ۔کہ ہم نے ان کی کیا تربیت کی ؟ انہیں دین کا علم دیا یا نہیں ؟ آخر کون ذمہ دار ہو گا ان سب باتوں کے لئے ؟بچے کو سردی میں نماز کے لئے اٹھاتے یا گرمی میں روزہ رکھواتے یا بیٹیوں کو گرمی میں عبایا پہنواتے روح تڑپ جاتی ہے ہماری پر جہاں بات دنیا کی اس کے علم کی آتی ہے ہم بھی ایک سو اسی کے زاویے پر پلٹ جاتے ہیں ,بلکہ بعض اوقات تو دینی تعلیم کی زبردستی کو اولاد کی ذاتیات پر حملے کے مترادف سمجھ لیتے ہیں ۔

 

فجر کی جماعت کے بعد زاہد اور حامد نے شکر ادا کیا کہ جان جلدی چھٹ گئی اب وہ آرام سے جا کر نیند پوری کر سکیں گے پر ابھی تو انقلاب شروع ہوا تھا آج کا دن کافی لمبا ہونے والا تھا۔ 

جماعت کے فورا بعد سب بچوں نے دوڑ کر اپنے اپنے سپارے پکڑ لئے اور اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر ہل ہل کر سبق یاد کرنے لگے ۔وہ دونوں ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے تبھی کچھ بڑے لڑکے ہاتھوں میں بید کی چھڑیاں تھامے جانے کہاں سے آ گئے ۔

“اوے !تم دونوں نے کیا ظہر کی نماز تک ایسے ہی کھڑے رہنا ہے ؟سپارے کہاں ہیں تم دونوں کے ؟ایسے کیوں کھڑے ہو ؟اس سے پہلے کہ وہ دونوں گھبرا کر رونا شروع کرتے عارف کی آواز سنائی دی ،”چھوڑ دو انہیں نیا داخلہ ہے “۔عارف ان دونوں کو مولوی چراغ دین کے پاس لے گیا جو کسی بچے کا سبق سننے میں مصروف تھے ۔مولوی چراغ دین دارلشفقت میں اردو اور اسلامیات کے استاد تھے اور ساتھ ساتھ دارلشفقت کی مسجد کے امام بھی تھے ۔گندمی رنگت چھوٹی چھوٹی داڑھی سر پر عمامہ سجاے نرم طبیعت استاد تھے پر غافل طالب علموں کے لئے ایک ڈارونے خواب جیسے تھے ۔غافل ،بے پرواہ ،احساس ذمہ داری سے عاری بچے ان کے لئے نا قابل برداشت تھے ۔انہوں نے زاہد اور حامد کو دیکھا ان کا سبق سنا اور انہیں شروع سے قائدے پر لگا دیا ۔وہ دونوں بیٹھ کر اپنا سبق یاد کرنے لگے ۔پر حامد کا دھیان عارف پر تھا جو کسی اور بچے کا سبق سننے میں مصروف تھا ۔حامد نظر بچا کر عارف کے پاس پہنچا اور کہنے لگا ،”آفی بھائی !آج بھی آپ کو بےبے نے بھیجا ہے ؟” عارف نے مسکرا کر اسکی جانب دیکھا اور بولا ،”ارے ہاں نا بلکل !تمہاری بےبے نے کہا کہ میں تم لوگوں کو مسجد میں سپارہ پڑھاؤں”۔ بس یہ سننے کی دیر تھی کہ صدمے سے حامد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے وہ واپس زاہد کے پاس آ کر بیٹھ گیا ،”دیکھا میں کہتا تھا نا بےبے نے ہمیں سزا دینے کے لئے یہاں بھیجا ہے ،میں کبھی بےبے سے بات نہیں کروں گا ،گندی ہے وہ اس عارف کو اس نے کہا ہے کہ ہمیں روز مسجد میں صبح سپارہ پڑھاے “۔ حامد کی بات سے زاہد کو بھی شدید صدمہ پہنچا تھا ۔

تبھی مولوی چراغ دین کی بارعب آواز سنائی دی ،”چلو سب بچے جا کر ناشتہ کرو ،اور کل سبق یاد کر کے آنا”۔ ناشتے کا سن کر حامد اور زاہد ایک مرتبہ پھر خوش گمان ہونے لگے ۔چلو شکر چھٹی ہوئی ناشتے کے بعد آرام سے نیند پوری کریں گے ۔ناشتے کی میز پر ہر بچے کو ایک ایک پراٹھا تھوڑے سے چنے اور ایک ایک ابلا ہوا انڈا ملا اور ساتھ میں ایک کپ چاے بھی ۔ان دونوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔

دونوں خوشی خوشی ناشتہ کرنے لگے پر عین اس وقت ان کی خوشی غارت ہو گئی جب شبیر نے آ کر با آواز بلند کہا کہ سب بچے جلدی جلدی ناشتہ ختم کریں اور اسکول کی تیاری کریں ۔حامد کے چلتے ہاتھ وہیں رک گئے ۔زاہد کے تو مانو گلے میں نوالہ ہی پھنس گیا ۔

عارف نے ان دونوں کو ان کی اسکول کی وردی لا کر دی ۔سب بچے جلدی جلدی تیار ہو کے پی ٹی گراؤنڈ میں پہنچ گئے ۔تلاوت اور نعت رسول مقبول ﷺ کے بعد سب بچے اپنی اپنی جماعت کی جانب روانہ ہو گئے ۔یہاں سے حامد اور زاہد کے راستے جدا جدا تھے ۔ایک کو چوتھی جماعت میں اور دوسرے کو پانچویں جماعت میں داخلہ ملا ۔

یہاں ان کی ملاقات ایک بار پھر ماسٹر اللّه دتہ سے ہوئی جو ان کو معاشرتی علوم اور حساب پڑھانے پر مامور تھے ۔اور بد قسمتی سے زاہد اور حامد حساب میں دونوں ہی بہت کچے تھے ۔اللّه اللّه کر کے دوپہر ہوئی تو کھانے کا گھنٹہ بج اٹھا ۔دال چاول دیکھ کر دونوں کا مزاج برہم ہو گیا ۔حامد نے شکوہ کناں نظروں سے عارف کو کھوجا اور زاہد کی طرف دیکھا جیسے کہتا ہو ،”دیکھا !!میں نہ کہتا تھا بےبے ہمیں سزا دے رہی ہے ۔۔۔۔لو دیکھ لو دال چاول ،یہاں بھی بھیج دیے “۔کھانا بیچ میں چھوڑنے کی سخت ممانعت تھی لہٰذا دونوں کو پلیٹ صاف کرنی پڑی ۔

ہال سے باہر نکلنے پر سب بچوں کو قطار میں لگنے کو کہا گیا قطار کے آخر پر شبیر اور خانساماں ایک بڑا سا تھیلا لیے کھڑے تھے اور ہر بچے کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا ڈبہ تھما رہے تھے ۔زاہد اور حامد بھی پر اشتیاق تھے کہ چلو کچھ تو شغل ملا کہ یہاں بھی ،”چیز ونڈی”،کی مل رہی ہے ۔ان کی باری پر ان دونوں کو بھی وہ ایک ایک ڈبہ ملا جس پر انگریزی زبان میں کچھ لکھا تھا اور ساتھ گاۓ کی تصویر تھی ۔بڑی بے صبری اور انجانی خوشی سے ان دونوں نے وہ ڈبہ کھولا تو ایک انجانی نا گوار بو ان کے نتھنوں سے ٹکرائی ۔دیکھنے میں یہ سفید برفی جیسی کوئی چیز تھی۔انہوں نے ڈرتے ڈرتے اسے چکھا اور چکھتے ہی حامد کے دال چاول جو پہلے ہی گلے میں اٹکے پڑے تھے اور نیچے جانے سے انکاری تھے قے کی صورت باہر آ گئے ۔اس نے میدان میں ایک طرف ہو کر اپنا بوجھ ہلکا کیا اور وہ ڈبہ برفی سميت پهينك دیا ۔زاہد کو بھی متلی سی ہونے لگی پر اس نے اس ڈبے کو سنبهال لیا اور اپنے بستے میں ڈال لیا ۔”دیکھا میں نا کہتا تھا ۔۔۔۔بےبے ہمیں سزا دے رہی ہے ۔۔۔۔اور اب دیکھ ۔۔۔لگتا ہے ہمیں مارنے کے لئے یہ زہر بھیجا ہے “۔ حامد غصے میں پھنکارہ ۔

زاہد نے ارد گرد باقی بچوں کو دیکھا جن میں سے اکثریت وہ برفی بنا منہ بناے بنا قے کئے کھا رہی تھی ۔جب کہ کچھ بچوں نے اپنے ڈبے بنا کھولے ان بچوں کو دے دیے تھے جو اس ،”اعلی معیار کے غیر ملکی پنير” کو کھانے کے عادی ہو چکے تھے ۔زاہد نے سوچا حامد کو غلط فہمی ہوئی ہے یقیننا ورنہ بےبے اتنی بھی ظالم نہیں اور پھر یہ باقی سب بچے ،انکی بےبے نے بھی کیا سزا کے طور پر انہیں پنير یا دال چاول کھانے کے لئے بھیجے ہیں ؟ اس نے حامد کو سمجھانا چاہا پر وہ کچھ بھی سننے سے انکاری تھا ۔شام کا وقت تھا عصر سے مغرب سب بچے میدان میں ہاکی یا فٹ بال کھیلنے میں مصروف تھے کچھ بیٹھے اپنا اسکول کا کام مکمل کر رہے تھے ۔

مغرب کی با جماعت نماز کے بعد انہیں ایک ہال کمرے میں لے جایا گیا جہاں بڑا سا ریڈیو پڑا تھا اور اس پر بچوں کا کوئی ڈرامہ نشر ہو رہا تھا ۔حامد اور زاہد کے لئے یہ بہت بڑی بات تھی ۔انہوں نے ریڈیو پر نور جہاں کا گانا بھی سنا اور خبریں بھی جو ان کے سر کے اوپر سے گزر گیں۔ دونوں بے حد مسرور تھے ۔تب زاہد نے حامد کو کہنی ماری اور اشارہ کیا جیسے کہتا ہو _”ہاں بیٹا !اب بتا یہ ریڈیو بھی تو بےبے کی کرم نوازی ہے نا “۔ عشا کی نماز با جماعت کے بعد رات کے کھانے کی باری آئی سب کو دو آلو اور ایک بوٹی کا سالن ملا ۔دونوں نے خوش ہو کر کھانا کھایا ۔رات کو سونے سے پہلے ہر بچے کو دودھ کا ایک گلاس ملا جو ان کے لئے نعمت مرقبہ سے کم نہیں تھا ۔اب ایک گھنٹہ پڑھائی کا تھا اور اس کے بعد سب کو سونا تھا ۔

ہال کی بتیاں بند ہوتے ہی وہ سونے کے لئے لیٹ گئے اور فورا ہی نیند کی وادی میں جا پہنچے ۔آج کے دن کے اختتام پر انہوں نے یہ بات جان لی تھی کہ کہ سزا تھی یا نہیں پر انہیں ہر صورت بھگتنی تو تھی اور اب ان کے آنے والے روز و شب ایسے ہی گزرنے والے تھے ۔سوتے وقت دونوں اپنی بےبے کو یاد کرنا نہیں بھولے تھے ۔زاہد کا خیال تھا کہ کاش اس کی بےبے چھوٹا بھائی اور شازی بھی یہاں ہوتے تو یہ جگہ جنت سے کم نہ ہوتی ۔

از قلم ،”عظمیٰ خرم “

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button