لکھ یار

حیات از قلم عظمیٰ خرم

#پری_اپرووڈ
#حیات_پارٹ_16
#حیات
پارٹ 16
احد نے شریں سے بات کی کہ اگر وہ نکاح کر لیں تو ماں کے ساتھ حج پر جا سکتے ہیں اور دونوں مل کے اس کا خیال بھی رکھ لیں گے ۔پر خلاف توقع اسے شریں کا رد عمل دیکھ کر شدید جھٹکا لگا ۔احد کو پہلی بار اپنی ماں سے اختلاف ہوا ،شریں کی بچگانہ سوچ سن کر اسے احساس ہوا کہ سمجھ داری کا آپ کی عمر سے کچھ لینا دینا نہیں ۔کہنے کو دونوں کی کتنی ذہنی ہم آہنگی تھی پر زندگی اس سے بھی کچھ زیادہ مانگتی ہے وقت کے ساتھ ساتھ ترجیحات بدلتی ہیں،ضرورتیں،رویے سب حالات کے ساتھ بدلنے پڑتے ہیں ۔
شریں نے یہ مطالبہ سنتے ہی نہ صرف منع کر دیا بلکہ بے حد ناراض ہوئی کہ آخر احد نے کیا سوچ اور سمجھ کر اسے حج پر ماں کے ساتھ چلنے کو کہا ،کیا وہ کوئی ملازمہ ہے جو اس کی نابینا ماں کی لاٹھی بننے کو ساتھ چلے ؟اور دوسری بات ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے ؟اس نے ایسے کون سے گناہ کر دیے ہیں جن کو بخشوانے وہ حج پر چل دے ؟ جو معاشرے کا رواج ہے ویسے ہی چلنا چاہیے نا ۔جب بوڑھے ہوں گے اپنی زندگی کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو جایں گے تو کر لیں گے حج عمرے بھی آخر تب یہی کچھ تو کرنا ہے ۔پر ابھی وہ ایسا کوئی بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں ۔”
احد تو جوں جوں سنتا گیا توں توں شرمندہ ہوتا گیا کہ یہ تھی وہ حسن کی دیوی ؟اس کی پسند ؟سمجھ دار ؟ماڈرن ؟۔ شریں کی باتوں کے جواب میں اس نے صرف اتنا کہا ،”کتنا اچھا ہوا نا شیریں! ساتھ چلنے سے پہلے ہی ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہو گیا کہ ہم “ساتھ “نہیں ہیں،گلہ تم سے نہیں خود سے ہے کہ میں تمہاری اس سوچ سے کیسے انجان رہا اب تک? اور جہاں تک بات ہے حج پر جانے کی تو میں اچھی طرح جان چکا ہوں کہ اصل میں تمہاری “نا “میری ماں کے جانے سے جڑی ہے. میں چاہے کچھ بھی کروں اپنی ماں کو لے کر جاؤں گا. زندگی کا ساتھی تمہیں بھی مل جائے گا اور مجھے بھی پر اگر سب کچھ تمہارے پلان کے مطابق نہ ہوا تو?تب اگر زندگی ہی نہ بچی تو ؟”
اور بنا اس کا جواب سنے اسے لاجواب چھوڑ کے چلا آیا ،ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ۔
اللّه جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے اس چھوٹی سی بات سے شریں کی مستقبل کی سوچ کھل کر اس کے سامنے آ گئی تھی ۔
ٹوٹے دل،منتشر خیالات کے زیر اثر وہ انہی سوچوں میں غلطاں مال روڈ پر نکل آیا پر انارکلی سے آگے سارا مال روڈ کسی ہجوم نے بلاک کیا ہوا تھا ۔اپنے مطالبے آنے تک وہ وہاں سے نہ خود ہٹنے والے تھے نہ کسی اور کو راستہ دینے والے تھے ۔اس کی جيپ کے آگے اور پیچھے گاڑیاں تھیں اس نے شدید کوفت اور بیزاری سے ساری صورتحال کا جائیزہ لیا ۔اس کے ساتھ اس کے پروٹوکول افسر بھی نہیں تھا نہ ہی ڈرائیور ۔
سائیکل والے اپنی سائکلیں کندھے پر اٹھا کے فٹ پاتھ سے آگے نکل رہے تھے ان کی دیکھا دیکھی کچھ سکوٹر اور موٹر سائیکل والے بھی اپنی شاہی سواری فٹ پاتھ پر چڑھا کر نکلتے جا رہے تھے ۔آج پہلی بار وہ دو پہیوں والی سواری کی افادیت کا دل سے معترف ہوا تھا۔
ابھی وہ اسی شش ؤ پنج میں تھا کہ کیسے اس رش سے نکلے جس میں وہ بیچو بیچ پهنسا کھڑا تھا ۔تبھی کسی گاڑی کے تیز ہارن اور پھر تيزی سے ٹائر چرچرانے کی آواز نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ۔ایک گاڑی والے نے اپنی گاڑی سڑک کے درمیان والے فٹ پاتھ پر چڑھا دی تھی اور اس سے پہلے کہ لوگ سمجھ سکتے کہ وہ کرنا کیا چاہتا ہے دیکھتے ہی دیکھتے وہ گاڑی سے نکل کر آگے کی طرف بھاگنے لگا اور پھر فٹ پاتھ پر چڑھے سکوٹر کے پیچھے بیٹھ کے یہ جا وہ جا ۔پر ساتھ ہی ہجوم میں كهلبلی مچ گئی اور سب لوگ شور مچاتے بھاگ کر سڑک سے جتنا دور ہو سکتے تھے ہو کے کھڑے ہو گئے ۔راستہ کھلتے ہی گاڑی والوں نے سکون کا سانس لیا۔
اب دو ٹریفک پولیس والے بھی نظر آنے لگے تھے جو جلدی جلدی ہجوم کو اس لڑکے کی گاڑی سے دور ہٹنے کو کہہ رہے تھے ۔احد نے آگے آ کر اپنی گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور پولیس والے کو اپنا تعارف کروایا اس کے سیلوٹ مارتے ہی ارد گرد چھپے ہوے باقی سنتری بھی ڈنڈے پکڑے ہانپتے کانپتے آ گئے ۔وارڈن نے اسے بتایا کہ کوئی لڑکا یہ کالی گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھا کر بھاگ گیا ہے اور سب لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس گاڑی میں بم ہے ۔ملک میں لگی موجودہ ایمرجینسی کے تحت دیکھا جاتا تو بہت سنجیدہ معاملہ تھا اسی لیے مزيد نفری طلب کی گئی اور گاڑی کی پوری جانچ پڑتال سے پتا چلا کہ گاڑی میں بم تو دور ایک پسٹل بھی نہیں ہے ۔تب جا کر سب کی سانس میں سانس آیا ۔
پر احد سمیت سب کے لئے اس لڑکے کی یہ حرکت حیران کن تھی کہ آخر وہ گاڑی کس کی تھی اور وہ کیوں اسے اتنی عجلت میں ایسے بیچ سڑک چھوڑ کے بھاگ گیا ؟گاڑی اب پولیس کے قبصے میں تھی اور اس کے مالک کا پتا چلایا جا رہا تھا ۔
احد نے گھر آ کر ماں کو منگنی ٹوٹنے کی خبر سنانے کی بجاے یہ لطیفہ سنانا زیادہ بہتر محسوس کیا اور ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دی کہ انشاء اللّه اس سال دونوں ماں بیٹا حج پر ضرور جایں گے ۔یہ خوشی کی خبر سنا کر گویا اس نے اپنی ماں کی آنے والی کئی راتوں کی نیند اڑا دی تھی ۔
کچھ دن کی شدید مصروفیت کے بعد آج وہ فارغ تھا تو سوچا چلو ،”جم خانہ کلب “،کا چکر لگا لے ۔ویسے بھی اگر کوئی افسر ،افسر ہونے کے باوجود آے دن کلب کی پارٹیز میں سینئیر افسروں کے آگے پیچھے پھرتا نظر نہ آے تو اس پر غداری کے فتوے لگتے وقت نہیں لگتا ۔جم خانہ کی پارکنگ میں گاڑی پارک کرنے لگا تو اس کی نظر اس دن والی گاڑی پر پڑ گئی ۔مارے تجسس کے اس نے چوکیدار کو بلا کے پوچھا کہ یہ گاڑی کس کی ہے ؟پتا چلا کہ شہر کے نامور جج صاحب ،”ایم ضمیر “کی ہے ۔
وہ انہیں پہلے بھی ایک دو بار سماجی حلقوں میں مل چکا تھا کافی زندہ دل آدمی تھے ۔سوے اتفاق اندر جاتے ہی ان سے ٹاکرا ہو گیا ۔تجسس سے مجبور ان سے سوال کے بیٹھا ،”سر یہ آپ کی گاڑی تو حوالات میں تھی !میں صرف یہ جاننا ۔۔۔۔۔۔۔” اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتا کسی کی اس کی بات اچک لی ،”اوہو !تو آپ ہیں وہ سورما جنہوں نے میری گاڑی کا لاک تڑوا کے اسے تھانے پہنچایا ؟آپ کو پتا ہے آپ کی وجہ سے بابا نے کتنا ڈانٹا مجھے ؟کتنا نقصان اٹھانا پڑا مجھے ؟”
احد نے حواس باختہ ہوتے ہوے اٹھ کر اپنے پیچھے دیکھا جہاں سے مسلسل،” گولہ باری”، جاری تھی۔مطلب ایسے بھی کوئی کر سکتا ہے بھلا ؟قصور بھی اپنا پھر بھی الزام اس کے سر ۔پر وہ چاہ کر بھی کچھ نہ کہہ سکا. اس کے مخاطب کے انداز میں اتنی معصومیت تھی کہ ایک لمحے کے ہزارويں حصے میں اس نے خواہش کی کہ وہ بولتی رہے اور وہ سنتا رہے ۔وہ تو خیر ہو ضمیر صاحب کی کہ وہ بیچ میں آ گئے ،”ارے ارے ،” واے زیڈ”,بیٹا بات تو سنو میری جان ،اس سب میں ان کی کیا غلطی ؟”
“نہیں بابا !یو آر رونگ دیٹ واز ہز میسٹیک”،(آپ غلط ہیں بابا یہ سب اسی کی غلطی ہے )
احد نے باپ بیٹی کی تکرار سے بہت محظوظ ہوا ۔
ایم ضمیر صاحب اپنی بے قابو ہوتی بیٹی کو سمجھاتے سمجھاتے ڈائینگ ہال سے باہر لے گئے تھے ۔
احد نے کچھ دیر مزید بیٹھنے کے بعد گھر جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ تبھی ایم ضمیر صاحب کا ڈرائیور ان کا پیغام لے کر آیا کہ اگر آپ مصروف نہ ہوں تو کل شام کی چاے پر صاحب کے گھر تشریف لے آئیں ۔تجسس ابھی باقی تھا اسی لیے اس نے دعوت قبول کر لی ۔
اگلے دن میٹنگ سے فارغ ہوتے ہی وہ ایم ضمیر صاحب کے گھر کے باہر موجود تھا ۔گیٹ سے اندر آتے ہی اس نے چاروں طرف کا جائیزہ لیا وسیع کشادہ لان کے آخری سرے پر ایک مالی گوڈی کرنے میں مصروف تھا وہ چلتے ہوے قریب آیا تو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت کا شکار ہوا کہ وہ مالی بذات خود ضمیر صاحب تھے ۔”ارے واہ جنٹلمین یو آر آن ٹائم “۔احد کی آنکھوں میں حیرت دیکھتے ہوے خود ہی گویا ہوے ،”آبياری پودوں کی ہو یا اولاد کی جب تک آپ اپنا وقت، توجہ، محبت کا لمس نہیں دیتے وہ اس طرح نہیں پھلتے پھولتے جیسا آپ انہیں دیکھنا چاہتے ہیں “۔ احد سے ان کی سوچ کو داد دی بلکل سچ کہا تھا انہوں نے ۔
ڈرائنگ روم میں چاے پر تكلف لوازمات سميت تیار تھی ۔تبھی وہی کل والی لڑکی نیلے رنگ کی جينز اور سفيد قمیض میں ملبوس ہنستی مسکراتی اندر داخل ہوئی پر اسے دیکھ کر احد کی مسکراہٹ الجھن میں بدل گئی تبھی اس نے اپنا ہاتھ مصافحہ کے لئے احد کی جانب بڑھایا ۔احد نے سوالیہ حیرت سے ضمیر صاحب کی طرف دیکھا جو اس کی پيالی میں چاے انڈیل رہے تھے تبھی انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھا ،”اس سے ملو احد!یہ میرا بیٹا احسن ضمیر “۔ اس سے پہلے کہ احد کچھ سمجھ پاتا تبھی اس نے ،”وائی زيڈ”،کو اندر داخل ہوتے دیکھا جس کے چہرے پر احد کو دیکھتے ہی ناگواری کا تاثر آ کے ٹھہر گیا تھا ۔اب احد کو ساری صورتحال سمجھ میں آ گئی تھی ۔
احد کے بدلتے تاثرات کو بھانپتے ہوے ضمیر صاحب نے تعارف کروایا “احد !یہ دونوں بچے میری کل کاینات ہیں ،یہ دونوں جڑواں ہیں،ایڈینٹیکل ٹونز ہیں جو بھی انہیں دیکھتا ہے دھوکہ کھا جاتا ہے کہ کون “وائی زیڈ “ہے اور کون احسن?اور ان کی ماں فلسطینی ہے پر وہ ہمارے ساتھ نہیں رہتی ۔”

احد نے خوشگوار حیرت سے اپنے سامنے بیٹھے ان دو نفوس کو دیکھا جن میں سے ایک کے چہرے پر مسیں بهيگنے کے ہلکے سے آثار تھے وہ احسن تھا ۔دونوں بھائی بہن ایک جیسے کپڑوں میں ملبوس تھے دونوں کے بالوں کی کٹنگ بھی ایک جیسی تھی بس فرق یہ تھا کہ ایک کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور دوسرے کے خفگی کا تاثر ہنوز قائم تھا ۔
ضمیر صاحب نے بتایا کہ اس دن ،”وائی زیڈ”کا پریکٹیکل تھا اور مظاہرین کی طرف سے سڑک کی بندش کی وجہ سے ،”وائی زيڈ”نے گاڑی سڑک کے درمیان فٹ پاتھ پر چڑھائی اور ایک سکوٹر والے سے لفٹ لے کر امتحانی مرکز پہنچی ،وہ ایسا نہ کرتی تو اس کا سال ذائیع ہو جاتا اور امتحان کے بعد جب واپس پہنچی تو پولیس والے اس کی گاڑی کو قريبی تھانے لے جا چکے تھے ،اور جب تک میں وہاں پہنچا وائی زیڈ ان کے سوالوں سے پریشان ہو چکی تھی اس لیے کل تمہیں دیکھتے ہی تم پر غصہ نکال بیٹھی ۔
اب احد کی ساری الجھن دور ہو چکی تھی ۔
اس شام کا اختتام آغاز سے اچھا تھا،” وائی زيد “،یعنی ،”یمنہ ضمیر”،اپنے نام کی طرح انوکھی اور بے مثال تھی ۔آنے والے دنوں میں جب بھی احد مال روڈ سے گزرتا اس کے ہونٹ خود بخود مسکرانے لگتے وہ نازک سی شیرنی اس کے حواسوں پہ چھانے لگی تھی ۔اب وہ اکثر جم خانہ میں ضمیر صاحب کی صحبت میں پایا جاتا ،بے تکلفیاں بڑھنے لگی تھیں۔

“میں نے چاہا کہ منتظر رہوں بہار آنے تک
اس زرد ہوتے وجود پر شفق چھا جانے تک
نا جانے کونسا لمحہ لمحۂ آخر ہو جاناں
کیوں نا دیکھ لیں سحر طلوع ہونے تک”

جاری ہے……… جاری ہے…..
از قلم “عظمیٰ خرم “

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button