Talash by Mumtaz Mufti

کتاب : تلاش

باب 7 : دودھ کا پیالہ

ٹرانسکرپشن : گل لالہ

نصیحت

میری یہ تحریریں نصیحتوں کی حیثیت بھی نہیں رکھتیں ۔ میں کیا نصیحت کروں؟ میں نے خود گڑ کھایا ہے۔ کس منہ سے کہوں ۔” من نہ کردم شما حزر بکنید ” میرے گرو نے مجھے واحد نصیحت کی تھی ۔ کہنے لگے مفتی میری ایک نصیحت پلے باندھ لو ۔ وہ یہ کہ کبھی کسی کو نصیحت نہ کرنا ۔ نصیحت منہ سے کہنے کی چیز نہیں۔ کر دکھانے کی چیز ہے ۔منہ سے کہو تو الٹی چرخی چل جاتی ہے۔ ری ایکشن پیدا ہوتا ہے۔
نصیحت کی بات پر مجھے ایک کہانی یاد آگئی ۔ میں اس کہانی کو دنیا کی عظیم کہانیوں میں شمار کرتا ہوں۔ حکیم۔صاحب کی دکان تھی شام کا وقت تھا۔ حکیم صاحب شہد کے مرتبان پر ٹھیک سے ڈھکنا لگا کر نہیں گئے تھے ۔ ایک مکھی مرتبان پر جا بیٹھی۔ ڈھکنے کے دراز سے اندر گھسی اور شہد چاٹنے لگی۔ چاٹتی رہی۔
جب سیر ہو گئی تو چاہا کہ اڑ جاؤں لیکن اڑ نہ سکی کیونکہ اسکی ٹانگیں شہد کے شیرے میں پھنسی ہوئی تھیں۔ پھر وہ دیر تک خود کو چھڑانے کی کوشش کرتی رہی۔ آخر کار کامیاب ہو گئی لیکن تھک کر بیٹھ گئی۔
اس دوران دکان میں ایک پتنگا آ گیا ۔ وہ مکھی کو دیکھتا رہا۔ کچھ دیر بعد پھر مکھی شہد کی طرف بڑھی۔ پتنگا بولا بی بی ابھی تو اتنی مشکل سے شہد سے باہر نکلی ہو ۔اب پھر شہد کی طرف بڑھنے لگی ہو ۔ عقل کر بی بی کیوں خود کو پھر سے مصیبت میں ڈالتی ہو ۔ پتنگے کی بات سن کر مکھی شرمندہ ہو گئی۔ اتنے میں حکیم صاحب کا نوکر دیا جلا کر لے آیا اور دکان میں رکھ گیا۔دئیے کو دیکھ کر پتنگے نے دیوانہ وار شعلے کا طواف کرنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد شعلوں کی زد میں آ گیا اور جل کر نیچے گر پڑا۔مکھی یہ دیکھ کر مسکرائی۔ بولی لو ابھی ابھی مجھے نصیحت کر رہا تھا۔ عقل سکھا رہا تھا۔
صاحبو ! دراصل ان تحریروں کے پردے میں میں آپ سے باتیں کر رہا ہوں۔ حسن یار کی باتیں ۔ اپنی خوش فہمیاں کج رویاں الٹی الٹی سوچیں سنی سنائی بیتی آپ بیتیاں۔
جو گوروں نے برصغیر میں براڈکاسٹنگ کا آغاز کیا تھا تو انہوں نے نشریات میں ایک نیا موضوع شامل کیا تھا۔ جس کا نام انہوں نے” ٹاک ” رکھا تھا ۔
ہماری نشریات میں “ٹاک ” کامیاب نہ ہو سکا کیونکہ براڈکاسٹر یا تو اسے تقریر کی شکل دے دیتے یا مولویانہ وعظ کی یا سنجیدہ مقالے کی ۔ میری یہ تحریریں دراصل “ٹاک” کی حیثیت رکھتی ہیں۔
1975 میں آپکی خدمت میں حج کی روداد پیش کی تھی عنوان تھا ” لبیک ” ۔
لبیک کی اشاعت پر قارئین نے مجھے تقریباً دو ہزار خطوط لکھے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ بیشتر خطوں کا نفس مضمون ایک ہی تھا۔۔۔۔۔ لکھا تھا کہ ان موضوعات پر ہمارے خیالات اور جزبات بالکل ایسے ہی ہیں جیسے آپ نے لبیک میں رقم کیے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے آپ نے ہمارے خیالات اور جذبات کو لفظوں میں ڈھال کر لبیک میں پیش کر دیا ہے۔ تلاش لکھتے ہوئے کبھی مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میں آپ ہی کے خیالات اور جذبات کو لفظوں میں ڈھال رہا ہوں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button